کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی مسائل کا سامنا ہونے کا انکشاف

22 اکتوبر 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی جسے ذہنی دھند یا برین فوگ بھی کہا جاتا ہے، کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

لانگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے، جس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے مسائل بشمول یادداشت کی محرومی، ذہنی الجھن، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل، سر چکرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکلات وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

ایشکن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں بشمول ایسے افراد جن کو ہسپتال داخل نہیں ہونا پڑا، ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔

تحقیق کے مطابق اگرچہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کے اہم دماغی افعال کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

اسی تحقیقی ٹیم نے اپریل 2021 میں ایک الگ تحقیق میں بتایا تھا کہ کووڈ کے ہر 3 میں سے ایک مریض کو ذہنی صحت سے جڑی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں اپریل 2020 سے مئی 2021 تک 740 کووڈ مریضوں کے ڈیٹا کو شامل کیا گیا تھا جن میں ڈیمینشیا کی تاریخ نہیں تھی، ان افراد کی اوسط عمر 49 سال تھی۔

ہر مریض کے دماغی افعال کا تجزیہ کیا گیا تھا اور محققین نے دماغی تنزلی کی شرح کی جانچ پڑتال کی۔

محققین نے دریافت کی کہ 15 فیصد کو بات چیت کی روانی میں مسائل کا سامنا تھا، 16 فیصد کو دماغ کے ایگزیکٹیو فنکشننگ کے مسائل کا سامنا ہوا، 18 فیصد کی دماغی تجزیہ کرنے کی رفتار سست ہوگئی، 20 فیصد کی فہرستیں تجزیہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی، 23 فیصد کی یادداشت پر اثرات مرتب ہوئے جبکہ 24 فیصد کو دیگر ذہنی مسائل کا سامنا ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ پسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں توجہ، زبان کی روانی اور یادداشت جیسے افعال میں تنزلی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

مگر ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے افراد میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے اور تحقیق میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والوں میں یہ شرح 37 فیصد اور زیادہ بیمار نہ ہونے والے افراد میں یہ شرح 16 فیصد تک ریکارڈ ہوئی۔

محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 اور دماغی تنزلی کے درمیان تعلق سے مریضوں کے طویل المعیاد علاج کے حوالے سے سوالات ابھرتے ہیں، خطرہ بڑھانے والے عناصر کو شناخت کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں