اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو بھی اپنے عہدے سے مستعفی

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2021
اسپیکر اسمبلی کے مستعفی ہونے کے بعد بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ - فائل فوٹو:ڈان نیوز
اسپیکر اسمبلی کے مستعفی ہونے کے بعد بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ - فائل فوٹو:ڈان نیوز

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال علیانی کے بعد اسپیکر صوبائی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو بھی مستعفی ہوگئے۔

انہوں نے اپنا استعفیٰ سیکریٹری بلوچستان اسمبلی کو بھجوا دیا، جس کے بعد بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

آج بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کی صدارت میں شروع ہوا جس میں سابق وزیراعلیٰ جام کمال علیانی سمیت ان کا کوئی اتحادی اجلاس میں شریک نہیں ہوا۔

اجلاس کے دوران بات کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ’تین خواتین ارکان سمیت چار ارکان کو غائب کرنے کی مذمت کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تھی لیکن آئین کے آرٹیکل 130 کی شق 8 کے تحت وہ مستعفی ہوگئے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں کئی روز سے جاری تنازع کا اختتام، وزیراعلیٰ جام کمال مستعفی

انہوں نے ہدایت دی کہ ’تحریک عدم اعتماد کا کوئی ایک محرک اپنی قرار داد واپس لے‘ جس پر بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے ایوان میں تحریک واپس لے لی۔

اجلاس میں بات کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنما ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ ’سابق وزیراعلیٰ نے نہ صرف اپوزیشن بلکہ اپنی پارٹی کے ارکان کو بھی خود سے دور رکھا، غلط رویوں اور پالیسوں کے باعث آج جام کمال کہاں پہنچ گئے‘۔

سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اسپیکر اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کو اسمبلی اجلاس کے بعد مستعفی ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے پہلے کہا تھا کہ جام کمال کو ہٹا کر دم لوں گا، آنے والے وقت میں عبدالقدوس بزنجو قائد ایوان کی نشست پر ہوں گے‘۔

انہوں نے اجلاس کے دوران سابق وزیر اعلیٰ جام کمال پر ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ’مجھے 20 کروڑ روپے کی آفر دی گئی، نہ ماننے پر دھمکیاں دی گئیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جمہوری تحریک کا راستہ غیر جمہوری طریقے سے روکنے کی کوشش کی گئی، سیاہ دور گزر چکا، بلوچستان کی ترقی کا نیا نظام بنائیں گے‘۔

رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن بھی ہماری طرح عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آئے ہیں، حالیہ بجٹ میں اپوزیشن کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا وہ افسوسناک ہے‘۔

بعد ازاں اسپیکر اسمبلی نے سیکریٹری اسمبلی کو اپنا استعفیٰ جمع کرایا جس کے بعد بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم اراکینِ وفاقی کابینہ کی بلوچستان کے معاملات میں مداخلت روکیں، جام کمال

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بی اے پی کے مرکزی رہنما سردار صالح بھوتانی نے بتایا کہ 'وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے چند ناموں پر غور کیا جارہا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک جماعت نہیں بلکہ اتحادیوں سے مشاورت بھی لازمی ہوتی ہے، کوشش ہو گی جس مقصد کے لیے تبدیلی کی گئی وہ عملی طور پر بھی نظر آئے‘۔

انہوں نے میڈیا سے نئی حکومت کو مسائل کی نشاندہی میں معاونت کرنے کی درخواست بھی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن اراکین کو کابینہ میں شامل کرنے کے حوالے سے بھی فیصلہ کچھ دن میں ہو جائے گا‘۔

سردار صالح بھوتانی کا کہنا تھا کہ ’جن لوگوں نے تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دیا انہیں شامل کریں گے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان علیانی نے کئی روز تک جاری رہنے والے تنازع کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔

بلوچستان کے گورنر کے ترجمان پائند خان خروٹی نے بیان میں کہا تھا کہ جام کمال خان نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان سید ظہور احمد آغا کو جمع کرایا جسے گورنر بلوچستان نے منظور کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ 20 اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی تھی۔

**مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش**

تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے پیش کی اور اسپیکر نے رولنگ دی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کر دی ہے۔

اس سے قبل اپوزیشن کے 16 اراکین اسمبلی نے بھی وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی لیکن گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے باعث تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔

بلوچستان میں بحرانی صورتحال

بلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے آثار سب سے پہلے رواں سال جون میں نمایاں ہوئے تھے جب اپوزیشن اراکین نے صوبائی اسمبلی کی عمارت کے باہر کئی دنوں تک جام کمال خان علیانی کی صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا کیونکہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں ان کے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ احتجاج بحرانی شکل اختیار کر گیا تھا اور بعد میں پولیس نے احتجاج کرنے والے حزب اختلاف کے 17 اراکین اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے باقاعدہ استعفیٰ نہیں دیا، جام کمال خان

اس کے بعد اپوزیشن کے 16 ارکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی تاہم گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے سبب تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔

اس ماہ کے اوائل میں بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں 14 اراکین اسمبلی کے دستخط کی حامل تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی کیونکہ علیانی کو اپنی پارٹی کے ناراض اراکین کی مستقل تنقید کا سامنا تھا جن کا ماننا ہے کہ وزیراعلیٰ حکومت کے امور چلانے کے لیے ان سے مشاورت نہیں کرتے۔

وزیراعلیٰ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں