میر جان محمد جمالی بلا مقابلہ بلوچستان اسمبلی کے نئے اسپیکر منتخب

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2021
مقررہ وقت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے میر جان محمد جمالی کے 5 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے—فوٹو: پی آئی ڈی
مقررہ وقت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے میر جان محمد جمالی کے 5 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے—فوٹو: پی آئی ڈی

میر جان محمد جمالی بلا مقابلہ بلوچستان اسمبلی کے نئے اسپیکر منتخب ہوگئے۔

بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں قائم مقام اسپیکر نومنتخب اسپیکر اسمبلی کا اعلان کریں گے۔

مزیدپڑھیں: بلوچستان میں کئی روز سے جاری تنازع کا اختتام، وزیراعلیٰ جام کمال مستعفی

خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو کی جانب سے اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد نئے اسپیکر کے انتخاب کا عمل آج ہوا۔

گورنر بلوچستان ظہور آغا نے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اجلاس طلب کیا تھا جس میں اسپیکر کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا وقت صبح 8:30 سے 12 بجے تک رکھا گیا تھا۔

تاہم مقررہ وقت میں بلوچستان عوامی پارٹی کے میر جان محمد جمالی کے 5 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے جبکہ کسی دوسرے امیدوار نے ان کے مقابلے میں کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔

سیکریٹری بلوچستان اسمبلی طاہر شاہ کا کہنا تھا کہ اسمبلی قوائد کے مطابق جان محمد جمالی بلا مقابلہ اسپیکر اسمبلی منتخب ہوگئے، اسپیکر کے انتخاب کے لیے اسمبلی کے اجلاس میں اب رائے شماری نہیں ہوگی اور قائم مقام اسپیکر نومنتخب اسپیکر کے نام کا اعلان کریں گے۔

خیال رہے کہ جان محمد جمالی بلوچستان اسمبلی کے 16ویں اسپیکر ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش

میر جان محمد جمالی بلوچستان کے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ضلع جعفرآباد کے علاقے اوستہ محمد میں 23 مئی 1955 کو پیدا ہوئے۔

آپ کے والد نور محمد جمالی قبائلی رہنما ہونے کے ساتھ سیاست دان بھی تھے۔

میر جان محمد جمالی نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقے سے حاصل کرنے کے بعد بلوچستان یونورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1983 میں بلدیاتی انتخابات سے کیا، 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی بنے۔

بعدازاں وہ 1990 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہو کر بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے اور 1993 میں صوبائی وزیر رہے۔

میر جان محمد جمالی 1997 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر دوبارہ رکن اسمبلی بنے اور 15 جون 1998 سے لے کر 12 اکتوبر 1999تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے۔

مزیدپڑھیں: وزیراعظم اراکینِ وفاقی کابینہ کی بلوچستان کے معاملات میں مداخلت روکیں، جام کمال

مسلم لیگ (ن) کے ہی ٹکٹ پر 2013 کے انتخابات میں دوبارہ حصہ لیا اور کامیاب ہوئے جبکہ 4 جون 2013 سے 2015 تک اسپیکر بلوچستان اسمبلی رہے اور 2مرتبہ ڈپٹی چیرمین سینٹ بھی رہے۔

2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ بنے اور اب ایک مرتبہ پھر اسپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔

بلوچستان میں کئی روز سے جاری تنازع کا اختتام

بلوچستان میں رونما ہونے والی سیاسی صورتحال میں موجودہ تبدیلی بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کی جانب سے کئی روز تک جاری رہنے والے تنازع پر استعفیٰ دینے کے بعد سامنے آئی ہے۔

چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ استعفیٰ منظور کرلیا گیا اور اور کابینہ تحلیل ہوگئی ہے۔

اس سے قبل جام کمال نے وزیراعظم عمران خان سے صوبے کے داخلی معاملات میں وفاقی کابینہ کے اراکین کی مداخلت روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان عوامی پارٹی کی صدارت سے باقاعدہ استعفیٰ نہیں دیا، جام کمال خان

جام کمال نے ابن العربی سے منسوب ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سیاسی تحریک بلوچستان اور پاکستان کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگی۔

20 اکتوبر کو بلوچستان اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی تھی۔

تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ناراض رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے پیش کی اور اسپیکر نے رولنگ دی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کر دی ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 65 کا ایوان ہے، جام کمال خان ہمارے لیے قابل احترام شخصیت ہیں، یہ ایک قبیلے کے سردار ہیں، ان کو قائد ایوان بھی اکثریت کے بل بوتے پر منتخب کیا گیا تھا اور آج بھی اکثریت کے بل بوتے پر یہ قرارداد آ گئی ہے اور اس ایوان نے فیصلہ کردیا ہے حالانکہ ہمارے اراکین اسمبلی مسنگ پرسن میں آ گئے ہیں۔

اس سے قبل اپوزیشن کے 16 اراکین اسمبلی نے بھی وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی لیکن گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے باعث تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔

بلوچستان میں بحرانی صورتحال

بلوچستان میں جاری سیاسی بحران کے آثار سب سے پہلے رواں سال جون میں نمایاں ہوئے تھے جب اپوزیشن اراکین نے صوبائی اسمبلی کی عمارت کے باہر کئی دنوں تک جام کمال خان عالیانی کی صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا کیونکہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں ان کے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ احتجاج بحرانی شکل اختیار کر گیا تھا اور بعد میں پولیس نے احتجاج کرنے والے حزب اختلاف کے 17 اراکین اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:میرے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی، جام کمال کا وزیراعظم سے ملاقات کے بعد دعویٰ

اس کے بعد اپوزیشن کے 16 ارکین اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی تاہم گورنر ہاؤس سیکریٹریٹ نے تکنیکی وجوہات کے سبب تحریک بلوچستان اسمبلی کو واپس کر دی تھی۔

اس ماہ کے اوائل میں بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں 14 اراکین اسمبلی کے دستخط کی حامل تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی کیونکہ عالیانی کو اپنی پارٹی کے ناراض اراکین کی مستقل تنقید کا سامنا تھا جن کا ماننا ہے کہ وزیراعلیٰ حکومت کے امور چلانے کے لیے ان سے مشاورت نہیں کرتے۔

وزیراعلیٰ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں