پیٹرول بحران: وزارت توانائی، اوگرا کے 5 عہدیدار گرفتار

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2021
ایف آئی اے نے ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے ان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ایف آئی اے نے ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے ان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سال 2020 کے پیٹرولیم اسکینڈل کے سلسلے میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور وزارت پیٹرولیم کے اعلیٰ عہدیداران سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا۔

ایک ایف آئی اے عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اوگرا کے سابق اراکینِ تیل و گیس عامر نسیم اور عبداللہ ملک، وزارت توانائی کے سابق ڈائریکٹر جنرل شفیع اللہ آفریدی، سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر (آئل) عمران ابڑو اور فاسل انرجی کے چیف ایگزیکٹو افسر ندیم بٹ کو گرفتار کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عہدیدار نے مزید بتایا کہ ان افراد کے خلاف سال 2020 کے پیٹرولیم اسکینڈل میں کردار ادا کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس کے بعد گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیا

بعدازاں ایف آئی اے نے ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے ان کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا۔

علاوہ ازیں ایک اور آئل مارکیٹنگ کمپنی آسکر آئل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹرز کو گرفتار کرنے کے لیے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں۔

ایف آئی اے لاہور نے اوگرا، وزارت توانائی اور پیٹرولیم ڈویژن اور 2 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے متعدد عہدیداران کے خلاف اسکینڈل کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 420، 468، 471، 109، پی سی اے کی دفعہ 5(2) اور اے ایم ایل اے 2010 کی ایک دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

ایف آئی اے کے مطابق مقدمے میں نامزد اوگرا عہدیداران پر غیر قانونی پیٹرولیم لائسنس جاری کرنے اور وزارت کے عہدیداران پر پیٹرولیم مصنوعات کے درآمدی کوٹے کی غیر قانونی اجازت دینے کا الزام تھا۔

مزید پڑھیں: تیل بحران کی وجہ طلب و رسد کے طریقہ کار کو سنبھالنے میں غلطی تھی، اوگرا

ان کے علاوہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے اوگرا عہدیداران کی ملی بھگت سے ملک بھر میں غیر قانونی فلنگ اسٹیشنز قائم کیے۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزم تیل مارکیٹنگ کمپنی آسکر آئل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ 2005 میں کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی، مذکورہ تیل مارکیٹنگ کمپنی اور اوگرا کی مجرمانہ ملی بھگت سے ملزم او ایم سی کی جانب سے کی گئی تمام بدعنوانی فروخت عظمیٰ عادل خان (چیئر پرسن)، نورالحق (رکن فنانس)، عامر نسیم (رکن گیس) اور ڈاکٹر عبداللہ ملک (رکن آئل) اور ان کے پیش رو کی دی گئی غیر قانونی توسیع سے ہوئی۔

مزید یہ کہ او ایم سی نے غیر قانونی طور پر فروخت کے حجم کے تناسب سے 20 دن کی سٹوریج کی سہولت تیار کرنے کے قانونی تقاضوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر ریٹیل آؤٹ لیٹس کا ایک بڑا نیٹ ورک قائم کیا۔

ملزم او ایم سی کے فراہم کردہ ریکارڈ کے مطابق اس کے 390 ریٹیل آؤٹ لیٹس ہیں جو ڈپارٹمنٹ آف ایکسپلوزیوز کے اعداد و شمار سے متضاد ہے جس کے مطابق تعداد ایک ہزار 19 ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں پیٹرولیم بحران میں تیل کے 12 درآمد کنندگان کے ملوث ہونے کا انکشاف

مذکورہ او ایم سی کی جانب سے جاری غیر قانونی کارروائیاں اوگرا کے حکام کی ملی بھگت کے بغیر کبھی بھی ممکن نہیں تھی جس سے مذکورہ او ایم سی کا لائسنس منسوخ کرکے اس کی مارکیٹنگ کو آسانی سے روکا جاسکتا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ او ایم سی کی جانب سے مسلسل غیر قانونی کارروائیاں اوگرا عہدیداران کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھیں جسے اس کا لائسنس منسوخ کر کے روکا جاسکتا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جون 2020 میں جب ملک پیٹرولیم بحران کا سامنا کررہا تھا، لائسنس کی شرائط کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملزم او ایم سی نے 20 دن کے بجائے 4 دن کا ذخیرہ رکھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ یہ غیر قانونی چیزیں جو اس نے برقرار رکھیں وہ واضح طور پر زیر بحث او ایم سی کے ذریعے اوگرا کے متعلقہ سرکاری ملازمین کی جانب سے سرکاری عہدے کے غلط استعمال/غلط استعمال کی عکاسی کرتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں