سینیٹ کمیٹی نے خواتین کے وراثت کو بنیادی حق قرار دینے کا بل مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 04 نومبر 2021
خواتین کے لیے وراثت کے حقوق کو آئین کے تحت بنیادی حق کے طور پر شامل کرنے کے لیے یہ بل سینیٹر سعدیہ عباسی نے پیش کیا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی
خواتین کے لیے وراثت کے حقوق کو آئین کے تحت بنیادی حق کے طور پر شامل کرنے کے لیے یہ بل سینیٹر سعدیہ عباسی نے پیش کیا تھا — فائل فوٹو: اے پی پی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے دو آئینی ترمیمی بلز کو کثرت رائے سے مسترد کردیا جن میں خواتین کے وراثت کو بنیادی حق قرار دینے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

تاہم کمیٹی نے دو دیگر آئینی ترمیمی بلز کی منظوری دی جن کے تحت وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کو صوبائی اسمبلیوں کی کارروائی میں حصہ لینے کا اختیار حاصل ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما سید علی ظفر کی سربراہی میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں 11 نجی اراکین کے آئینی ترمیمی بلز شامل تھے تاہم اسے پیش کرنے والوں میں سے بیشتر کی عدم موجودگی کے باعث انہیں مؤخر کرنا پڑا۔

زیادہ تر اپوزیشن ارکان کی جانب سے پیش کیے جانے والے بلوں میں آرڈیننس کے اجرا، سینیٹ کے اختیارات میں اضافے، وفاق کے معاملات میں صوبوں کی بامعنی شرکت کو یقینی بنانے اور پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق آئین کی مختلف شقوں میں چند اہم تبدیلیاں تجویز کی گئی تھیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر سعدیہ عباسی کی جانب سے خواتین کے لیے وراثت کے حقوق کو آئین کے تحت بنیادی حق دینے سے متعلق بل پر بحث کے دوران کمیٹی کے ارکان اپنی رائے میں منقسم پائے گئے۔

مزید پڑھیں: خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا، سپریم کورٹ

بل کے ذریعے سعدیہ عباسی نے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 24 (اے) شامل کرنے کی تجویز دی تھی اور مجوزہ ترمیم میں لکھا تھا کہ ’پاکستان میں کسی بھی عورت کو وراثت میں اس کے حصے سے محروم نہیں کیا جائے گا‘۔

سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری سرکاری اعلامیے کے مطابق اپنے بل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام نے ایک متوفی کے لواحقین، مرد اور عورت کے لیے متعین حصص کی وضاحت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی قوانین خواتین کو غیر منقولہ اور منقولہ جائیدادوں کا حقدار قرار دیتے ہیں تاہم اس کے باوجود خواتین کو وراثت میں ان کا حصہ نہ دینے کا رواج عام ہے۔

انہوں نے اسے ایک غیر منصفانہ عمل قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک معمول بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے بل کا مقصد وراثت میں خواتین کے حقوق کو اسلام کے اصولوں کے مطابق تسلیم کرنا اور اس پر زور دینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر مذکورہ ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو اس سے خواتین وراثت سے متعلق معاملات پر براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کر سکیں گی۔

تاہم وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کا مؤقف تھا کہ متعلقہ قوانین پہلے سے موجود ہیں اور وراثت کے معاملے کو بنیادی حق کے طور پر درج کرنے کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ کا خواتین کے وراثتی حق کو محفوظ بنانے پر زور

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم سے خواتین کے وراثت کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاست کے عزم کو تقویت ملے گی۔

تاہم پی پی پی کے ایک اور سینیٹر اور سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے بھی وفاقی وزیر کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں موجودہ قوانین کے بہتر نفاذ کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

بعد ازاں چیئرمین نے بل کو ووٹ کے لیے اراکین کے سامنے رکھا جسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔

کمیٹی نے ایک اور آئینی ترمیمی بل کو مسترد کر دیا جسے سعدیہ عباسی نے ہی پیش کیا تھا، جو شہریوں کے ضمانت کے حقوق سے متعلق تھا۔

تاہم کمیٹی نے پاکستان کے قومی ورثے کے مقامات نشاندہی، تحفظ، بحالی اور سب کے لیے رسائی کے حوالے سے سعدیہ عباسی کے پیش کردہ بل کی منظوری دے دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں