صحافی ماہر معیشت و کاروبار ہیں۔
صحافی ماہر معیشت و کاروبار ہیں۔

اب تو معاملات لطیفوں اور ناامیدی تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ کل کے روز ہم نے ان دونوں ہی چیزوں کی مثال دیکھی۔

یہ ایک لطیفہ ہی تھا جب قومی احتساب بیورو (نیب) نے سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ نیب نے ’اپنے قیام سے اب تک‘ تقریباً 8 کھرب 21 ارب 50 کروڑ روپے واگزار کروائے ہیں۔ لیکن اسی نشست میں وزارتِ خزانہ نے کمیٹی کو بتایا کہ واگزار کروائی گئی رقم جمع کرنے کے لیے موجود خصوصی اکاؤنٹ میں تو صرف 6 ارب 50 کروڑ جمع کروائے گئے ہیں۔

یوں فوراً ہی اس سوال نے جنم لیا کہ نیب جس رقم کا دعویٰ کر رہا ہے وہ کہاں گئی؟ اسی دن یہ سوال پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں اٹھایا گیا جہاں آڈیٹر جنرل (اے جی) نے بتایا کہ نیب کی جانب سے واگزار کروائی گئی رقوم کا باقاعدگی سے آڈٹ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی نیب کی جانب سے جن کنسلٹنٹ اور وکیلوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ان کا آڈٹ کیا جاتا ہے۔

یہ سب کچھ غیر ملکی کنسلٹنٹ کے حوالے سے سامنے آنے والے براڈ شیٹ اسکینڈل کے بعد ہورہا ہے۔ اس اسکینڈل کے نتیجے میں پاکستانی ٹیکس دہندگان کے تقریباً 4 ارب 59 کروڑ روپے ایک برطانوی ادارے کو جرمانے کے طور پر ادا کیے گئے تھے۔ اس کے بعد بھی کسی نے نیب کے آڈٹ پر توجہ نہیں دی جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ براڈ شیٹ اسکینڈل سے سامنے آنے والی چیزیں کہیں اب بھی تو موجود نہیں؟

اب پی اے سی نے آڈیٹر جنرل کو دو آڈٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ان میں ایک آڈٹ تو نیب کی جانب سے واگزار کروائی گئی تمام رقم کا ہوگا جبکہ دوسرا آڈٹ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے واگزار ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈ کے حوالے سے ہوگا۔

مزید پڑھیے: نیب نے قومی خزانے میں کوئی رقم جمع نہیں کرائی، سلیم مانڈوی والا

یہ رقم نیشنل کرائم ایجنسی نے برطانیہ میں ان کی وہ جائیداد ضبط کرکے حاصل کی تھی جس کی خریداری سے متعلق ملک ریاض وضاحت نہیں کرسکے تھے۔ وہ رقم دسمبر 2019ء میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں آئی لیکن اس کے بعد سے اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ پی اے سی کی ہدایات کے مطابق پہلا آڈٹ ایک ماہ میں مکمل ہوگا جبکہ دوسرا آڈٹ ایک ہفتے میں۔ تو ابھی مزید لطیفے سامنے آنے والے ہیں۔

اگر مایوسی اور ناامیدی کی بات کی جائے تو اس کی جھلک ہمیں گزشتہ روز وزیرِاعظم کے قوم سے خطاب میں نظر آئی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پس منظر میں وزیرِاعظم قوم کے سامنے آئے اور ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ’ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج‘ ہوگا۔ انہوں نے آٹے، گھی اور دالوں کی قیمتوں میں کمی کے لیے 120 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا اطلاق کیسے ہوگا۔ کیا اس کا اطلاق یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے ہوگا کہ جہاں مالی مشکلات کے باعث ان اشیا کی قیمتوں میں جولائی میں اضافہ ہوچکا ہے۔ اور پھر اس سبسڈی کے لیے رقم کہاں سے آئے گی کیونکہ وزیرِاعظم کے اپنے مشیر خزانہ کے مطابق یہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام ختم کرنے کی طرف جارہی ہے۔

یہ سوالات تو اس مبالغے کے علاوہ ہیں جس کے تحت 3 غذائی اشیا پر اس 120 ارب روپے کی سبسڈی کو ’ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ویلفیئر پیکج‘ کہا جارہا ہے۔ اس خطاب میں زیادہ توجہ اس بات پر دی جانی چاہیے جس کا وزیرِاعظم تیزی سے ذکر کرگئے۔ وہ بات یہ تھی کہ پیٹرول کی قیمتوں میں ایک بار پھر ’معمولی اضافہ‘ کرنا ہوگا۔ یاد کیجیے کہ گزشتہ اتوار ہی وزیرِاعظم آفس اور وزارتِ خزانہ نے بیان جاری کیا تھا کہ ’عوامی مفاد‘ میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

مزید پڑھیے: وزیر اعظم کا 2 کروڑ خاندانوں کیلئے 120 ارب روپے کے ریلیف پیکج کا اعلان

وزارتِ خزانہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اگر قیمتوں میں فرق آتا ہے تو اسے حکومت برداشت کرے گی اور آئل مارکٹنگ کمپنیز (او ایم سیز) اور ریفائنریز دونوں کی تلافی کرے گی‘۔

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت ’عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے‘۔ 4 دن بعد ہی حکومت اپنے ارادے سے پیچھے ہٹتی نظر آرہی ہے۔ یہ ایک ایسی عادت ہے جس کی وضاحت کے لیے یوٹرن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

16 اکتوبر کی قیمتوں کے پیچھے اصل وجہ رسد کی لاگت میں ہونے والا 10 روپے کا اضافہ تھا۔ اس اضافے کی ایک وجہ تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ اور دوسری وجہ روپے کی گرتی ہوئی قدر تھی۔

اکتوبر کے مہینے میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور یہ قیمت 80 سے 85 ڈالر کے درمیان رہی اور پھر نیچے آنے لگی۔ یہ ستمبر کے مہینے کی قیمتوں کی نسبت تو اضافہ ضرور تھا لیکن کوئی تاریخی اضافہ نہیں تھا۔ درحقیقت 2010ء سے 2014ء کے درمیان تقریباً 4 سال تک خام تیل کی قیمت 80 ڈالر سے زیادہ ہی رہی ہے اور طویل دورانیے کے لیے 100 ڈالر سے اوپر بھی گئی ہے۔ تاہم ماضی میں کبھی بھی پیٹرول پمپ پر پیٹرول کی قیمت آج کی طرح 137 روپے نہیں ہوئی، پھر عمران خان خود اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس وقت پیٹرول کی قیمت میں ٹیکسوں کا حصہ آج کے مقابلے کہیں زیادہ تھا۔

مزید پڑھیے: ’وزیراعظم کا ریلیف پیکیج ایک مذاق ہے’، اپوزیشن و دیگر کا ردعمل

تو پھر آج یہ 80 ڈالر کا تیل پیٹرول پمپ پر 137 روپے کا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عرصے میں ڈالر 88 روپے سے بڑھ کر 98 روپے کا ہوا تھا جو اس کی قدر میں 11 فیصد کمی تھی۔ اس کے برعکس 2018ء میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 109 سے بڑھ کر آج 170 تک آپہنچی ہے۔ یہ 3 سال میں روپے کی قدر میں 55 فیصد کمی بنتی ہے۔ آج سے 10 سال پہلے ایک روپے میں جتنا پیٹرول آتا تھا آج اس کے مقابلے بہت ہی کم آتا ہے جبکہ اس دوران ڈالر میں تیل کی قیمت تقریباً برابر ہی رہی ہے۔ یہ وہ وجہ ہے جس کے سبب ملک میں رسد کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے اور ملک میں مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے۔

اب ان کے سامنے ایک اور یوٹرن ہے اور وہ پیٹرول پر عائد ٹیکسوں کے حوالے سے ہے۔ اس وقت پیٹرول پر 6.6 فیصد جی ایس ٹی اور 5.6 فیصد پیٹرولیم لیوی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں ٹی وی پر نشر ہونے والی اپنی تقریر میں وزیرِاعظم نے پیٹرول کی قیمتوں میں ’معمولی اضافے‘ کی خبر اس وجہ سے دی ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی جانب سے پیٹرول اور ڈیزل پر جی ایس ٹی اور لیوی دونوں میں اضافے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایندھن کی قیمتوں میں یقیناً اضافہ ہوگا اور اسے نیب کی جانب سے واگزار کروائی گئی رقم کی طرح چھپایا نہیں جاسکے گا۔

ملک میں مہنگائی کے ساتھ اس ناامیدی اور ہمارے سامنے ہونے والے لطیفوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ حالات اب پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ جنوری تک انتظار کریں اور دیکھیں کہ اس وقت تک حالات کیا صورت اختیار کرتے ہیں۔


یہ مضمون 04 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں