مہنگائی پر قومی اسمبلی، سینیٹ میں حکومت کو اپوزیشن کی سخت تنقید کا سامنا

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2021
جماعت اسلامی کے رہنما نے تبدیلی کا نعرہ لگانے والی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فرانسیسی انقلاب سے سبق سیکھیں — فوٹو: اے این پی
جماعت اسلامی کے رہنما نے تبدیلی کا نعرہ لگانے والی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فرانسیسی انقلاب سے سبق سیکھیں — فوٹو: اے این پی

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر اپوزیشن اراکین کی جانب سے دونوں ایوانوں میں شور شرابہ کیا گیا اور قانون سازوں نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سےاقتدار میں آنے سے قبل کنٹینر پر کی جانے والی تقریروں کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے پیٹرول اور بجلی کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی پر سابق حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کے اجلاس کے آغاز پر اپوزیشن رہنما یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینیٹ کو بتایا کہ اپوزیشن رہنما پیٹرول کی قیمت میں اضافے پر بات کرنا چاہیں گے۔

انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن ایوان سے واک آوٹ کرے گی۔

بعد ازاں جب ایوان کی کارروائی معمول کے مطابق چلتی رہی تو پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کھوکھر نے احتجاج کیا اور کہا کہ موجودہ ایجنڈا معطل کرتے ہوئے عوام کو درپیش مسائل پر بات کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں: حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں مزید 4 روپے کا اضافہ کردیا

انہوں نے کہا کہ ’شہریوں کی زندگی تباہ حالی کا شکار ہوچکی ہے، اگر سب کچھ معمول کے مطابق رہے تو ہم اپنے رویے مناسب رکھیں گے‘۔

اس موقع پر انہوں نے نشاندہی کی کہ چینی 160 روپے فروخت کی جارہی ہے۔

علاوہ ازیں ایوان ’چینی چور‘ اور ’آٹا چور‘ کے نعروں سے گونج اٹھا، اپوزیشن سینیٹرز نے مہنگائی کے باعث عام شہری کی زندگی اجیرن ہونے پر وزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیا۔

اپوزیشن اراکین کی جانب سے سینیٹ چیئرمین کے سامنے کھڑے ہوکر حکومت مخالف نعرے لگائے گئے اور پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں بے مثال اضافے پر احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے کہا کہ کسی بھی ایجنڈے سے قبل اپوزیشن قانون ساز، اشیائے ضروریہ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بات کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گیس کے بحران کے بارے میں بات کرنے کا غلط مشورہ دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وزیر خزانہ کو پریس کانفرنس میں ان چیزوں کی وضاحت کرنی چاہیے تھی، ان کے خطاب کے 48 گھنٹے بعد قیمتیں دوبارہ بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔

جماعت اسلامی کےسینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ ملک بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سونامی میں پھنسا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھ کر بالترتیب 145 اور 142 روپے فی لیٹر پر پہنچ چکی ہے جبکہ 50 کلو گرام چینی کے تھیلے کی قیمت میں ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین سالوں میں گھی دگنی قیمت پر پہنچ کر 4 سو روپے فی کلو ہوگیا ہے جبکہ 10 کلو آٹے کی قیمت 268 روپے سے 600 روپے فی کلو ہوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ

جماعت اسلامی کے سینیٹر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو گندم اور چینی سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پر قابض ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے تمام مالیاتی منتظمین کو آئی ایم ایف کی جانب سے مسلط کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے لیے بڑا ریلیف پیکج یہ ہوگا کہ وزیر اعظم اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا اشیائے خورونوش سمیت گیس اور پیٹرول کی قیمتوں کو 2018 کی سطح پر لایا جائے۔

مشتاق احمد نے کہا کہ حکومت کو عوام کی حالت زار سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ عوام کے بجائے آئی ایم ایف کے مطالبات پورے کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے معیشت عملی طور پر آؤٹ سورس ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم کے ریلیف پیکج کو مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف اپوزیشن جماعتوں کا شدید احتجاج

جماعت اسلامی کے رہنما نے تبدیلی کا نعرہ لگانے والی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فرانسیسی انقلاب سے سبق سیکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کو اس وقت کا سوچنا چاہیے جب بھوکے اور بے روزگار نوجوان اقتدار کی راہداریوں کا محاصرہ کریں گے۔

انہوں نے مہنگائی کی وجہ سے غربت اور جرائم کی شرح بڑھنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے معاشرے کو انتشار کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے تبصرہ کیا کہ وہ لوگ جو پروٹوکول اور دیگر مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ایک دن یہ عوام کے غصے کا سامنا کریں گے، یہ ناانصافی زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کی جاسکتی، اپوزیشن کو ملک بچانے کے لیے حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔

سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی سطح پر اضافے کے باعث بڑھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسز میں نمایاں کمی کی ہے۔

ڈاکٹر شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے 120 ارب روپے کا ایک بڑا ریلیف پیکج دیا گیا گیا ہے تاکہ اشیائے ضروریہ سستے داموں فراہم کی جاسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریلیف پیکج کے ساتھ ساتھ مستحق افراد کے لیے احساس پروگرام کے تحت کئی منصوبے جاری ہیں جن کی لاگت 260 ارب ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کورم کی نشاندہی کی جس کے بعد اپوزیشن نے سینیٹ سے واک آوٹ کرنے سے قبل چیئرمین سینیٹ کی ڈائس کے سامنے احتجاج کیا۔

مزید پڑھیں: ‘وزیراعظم کا ریلیف پیکیج ایک مذاق ہے’، اپوزیشن و دیگر کا ردعمل

بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس پیر ساڑھے 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس

ادھر قومی اسمبلی کا اجلاس بھی شور شرابے کی نذر ہوگیا، ایوان پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف تقاریر کے دوران ’شیم، شیم‘ کے نعروں سے گونجتا رہا، چند اپوزیشن اراکین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اجلاس کے دوران ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی خواجہ آصف نے نہ صرف پیٹرول کی قیمت میں بے مثال اضافے پر حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اس پر مکمل بحث کا مطالبہ بھی کیا۔

خواجہ آصف نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ حکومت کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ معاہدے کا راز بھی فاش کرے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے دوران پارلیمنٹ کو غیر متعلقہ سمجھا گیا۔

لیگی رہنما نے سوال کیا کہ معاہدہ خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے؟

انہوں نے یہ بھی کہا کیا کہ ٹی ایل پی کے احتجاج میں کتنے لوگ اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس سے کیا اور کتنا مالی نقصان ہوا۔

گندم اور چینی کے مسئلے کو فریب قرار دیتے ہوئے اس پر کوئی کارروائی نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یکطرفہ احتساب کا مطلب اپوزیشن کو نشانہ بنانا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں