اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف بی آر کو جنگلی جانوروں کی درآمد کی اجازت دینے سے روک دیا

07 نومبر 2021
کرہ ارض پر انسانی نسلوں کا وجود جانوروں کی نسلوں اور ان کے قدرتی رہائش گاہوں کی بقا اور تحفظ پر منحصر ہے، عدالت - فائل فوٹو:اے ایف پی
کرہ ارض پر انسانی نسلوں کا وجود جانوروں کی نسلوں اور ان کے قدرتی رہائش گاہوں کی بقا اور تحفظ پر منحصر ہے، عدالت - فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جنگلی جانوروں کی درآمد کی اجازت دینے سے روک دیا ہے جو کہ پاکستان ٹریڈ کنٹرول آف وائلڈ فاؤنا اینڈ فلورا ایکٹ (پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے) 2012 کے خلاف ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے کے مطابق ایگزوٹک اینیمل سے مراد وہ جنگلی جانور یا پودوں کی اقسام ہیں جو ان کے قدرتی ماحول سے باہر کسی علاقے میں متعارف کرائے جاتے ہیں اور اس طرح سے ان کی تجارت کی وجہ سے انہیں معدوم ہونے کے خطرات کا سامنا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پاکستان اینیمل ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے دی گئی ایک پٹیشن پر سامنے آئی ہے جس میں خطرے سے دوچار جانوروں کی درآمد کے لیے حکومت کی جانب سے اجازت دیے جانے کے خلاف ہدایات جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

یہ قانون جنگلی حیوانات اور نباتات کی خطرے سے دوچار اقسام کی بین الاقوامی تجارت کے کنونشن (سی آئی ٹی ای ایس) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ملکی جانوروں کی برآمد یا درآمد پر پابندی لگاتا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: 'پالتو' شیر کا 10 سالہ بچے پر حملہ، دو افراد گرفتار

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ چار صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جب تک عدالت حتمی فیصلہ نہیں کرتی ایف بی آر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ سی آئی ٹی ای ایس میں درج کسی بھی غیر ملکی جانوروں کی نسل کو پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درآمد نہ کیا جائے۔

عدالت درخواست کی سماعت 19 نومبر کو دوبارہ کرے گی۔

حکم نامے میں یہ بھی یاد دلایا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے کہا تھا کہ جانوروں کی اقسام کا تحفظ، خاص طور پر جو سی آئی ٹی ای ایس میں درج ہیں، ان کے حقوق آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت ضمانت دیے گئے انسانوں کے زندگی کے حقوق سے ملتے جلتے ہیں۔

کہا گیا کہ اس کرہ ارض پر انسانی نسلوں کا وجود جانوروں کی نسلوں اور ان کے قدرتی رہائش گاہوں کی بقا اور تحفظ پر منحصر ہے، ہائی کورٹ نے پہلے بھی فیصلہ دیا ہے کہ جانوروں کی نسلوں کو صرف انسانوں کی تفریح کے لیے ان کے مسکن سے محروم کرنا ان کے قدرتی حقوق کے خلاف ہے۔

حکم میں نشاندہی کی گئی کہ جانوروں کی اقسام کی تجارت جس میں درآمد یا برآمد کا عمل شامل ہے انہیں غیر ضروری تکلیف سے دوچار کرتا ہے جو کہ قابل سزا جرم ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ خطرے سے دوچار جانوروں کی اقسام کی درآمد اور برآمد ایف بی آر کے امپورٹ پالیسی آرڈر کے تحت ہوتی ہے لیکن پالیسی کے تحت مقرر کردہ شرائط سی آئی ٹی ای ایس اور پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے کے مطابق ہونی چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیرتھر نیشنل پارک: جنگلی حیات کا مسکن

حکم نامے میں نشاندہی کی گئی کہ درآمدی پالیسی سے ایف بی آر کے نمائندے کی طرف سے پڑھی جانے والی درآمدی شرائط پہلی نظر میں پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے کے تحت تجویز کردہ لازمی تقاضوں سے متصادم ہیں۔

ہائی کورٹ نے وزارت ماحولیاتی تبدیلی کو پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے کے سیکشن 15 اور 16 کے تحت بالترتیب مینجمنٹ اتھارٹی اور سائنسی اتھارٹی کی تشکیل سے متعلق نوٹیفکیشنز کو ریکارڈ پر رکھنے کی ہدایت کی۔

کہا گیا کہ اگر یہ قانونی فورم ابھی تک تشکیل نہیں پائے ہیں تو اس عمل کو فوری طور پر شروع کیا جائے اور 30 دن کے اندر مکمل کیا جائے۔

عدالت نے ماحولیاتی تبدیلی کے سیکریٹری اور ایف بی آر کے چیئرمین سے کہا کہ وہ رپورٹس پیش کریں جس میں درآمد کے لیے شرائط کی قانونی حیثیت کا جواز پیش کیا جائے جیسا کہ درآمدی پالیسی آرڈر کے تحت سی آئی ٹی ای ایس اور پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے کی روشنی میں تجویز کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: حقیقت سے قریب جنگلی جانوروں کے فن پارے

واضح رہے کہ پی اے ڈبلیو ایس کی جانب سے ایڈووکیٹ محمد علی رضا کے توسط سے دائر درخواست میں وفاقی حکومت کو سی آئی ٹی ایس ایس اور پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ہدایت کی درخواست کی گئی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت پی ٹی سی ڈبلیو ایف ایف اے کو فعال بنانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے سی آئی ٹی ایس ایس کے تحت بین الاقوامی وعدوں کی خلاف ورزی کا خدشہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کی درآمد کی اجازت دینا اور انہیں ایسی جگہوں پر قید کرنا ہے جو ان کا قدرتی مسکن نہیں ہیں، عوامی مفاد میں نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں