گیس بحران کے پیشِ نظر پاکستان نے اب تک کا سب سے مہنگا ایل این جی کارگو قبول کرلیا

07 نومبر 2021
پی ایل ایل کو مناسب حکمت عملی کے فقدان پر تنقید کا سامنا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
پی ایل ایل کو مناسب حکمت عملی کے فقدان پر تنقید کا سامنا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستان نے موسم سرما کے عروج پر گیس کے ممکنہ بحران سے بچنے کے لیے قطر پیٹرولیم سے 30.6 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کی بلند ترین قیمت پر ایل این جی کارگو قبول کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے نومبر میں فراہم کیے جانے والے دو کارگوز کے لیے ہنگامی پیشکشیں طلب کی تھیں، کیونکہ اس سے قبل وعدہ کرنے والی 2 کمپنیاں گنوور اور ای این آئی نے اسے پورا کرنے سے انکار کردیا تھا۔

پی ایل ایل کا گنوور اور ای این آئی کے ساتھ ہر ماہ ایک ایل این جی کارگو کے لیے مختصر اور طویل مدتی معاہدے تھے، لیکن دونوں سپلائرز نے اپنے معاہدے پر عمل کرنے سے انکار کردیا تھا۔

جس کے نتیجے میں سرکاری فرم کو دسمبر اور جنوری کے مہینوں کے لیے دو ایل این جی کارگوز کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ٹینڈر طلب کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں:رواں ماہ سپلائی میں خلل کو روکنے کیلئے ایل این جی کے دو ہنگامی کارگو طلب

پیشکشیں 19 سے 20 اور 26 سے 27 نومبر کے درمیان کارگوز کی فراہمی کے لیے طلب کی گئی تھیں لیکن پھر پی ایل ایل نے فیصلہ کیا کہ نومبر کے وسط کے لیے پہلی پیشکش پر کام نہیں کیا جائے گا۔

رواں ماہ کے آخری ہفتے 26-27 نومبر تک فراہمی کے لیے قطر پیٹرولیم ٹریڈنگ کی جانب سے سب سے کم 30.65 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کا ٹینڈر داخل کیا گیا تھا، جس کے بعد ٹوٹل انرجیز کی پیشکش 30.96 ڈالر جبکہ ویٹول بحرین کی 31.05 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ذرائع نے بتایا کہ 19-20 نومبر کو سپلائی کے لیے پہلے ٹینڈر کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ دسمبر میں ملک کو گیس کی قلت کا سامنا ہوگا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس طرح 26-27 نومبر کو ایل این جی کارگو کی فراہمی کے لیے سب سے کم 30.65 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی بولی لگانے والا قطر پیٹرولیم رہا۔

مزید پڑھیں: سپلائرز کی عدم تعمیل کے باعث حکومت توانائی کی قلت دور کرنے کیلئے کوشاں

پی ایل ایل کو مناسب حکمت عملی کے فقدان اور جب بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں کم تھیں تو ایل این جی کی سپلائی یقینی نہ بنانے پر تنقید کا سامنا ہے۔

اس کے ساتھ ہی سرکاری اداروں نے نجی شعبے کو ایل این جی درآمد کرنے سے روک دیا تھا کیونکہ یہ پبلک سیکٹر کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکتا ہے۔

آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث پراچا کا کہنا تھا کہ حکومت نجی شعبے کو ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دینے اور مختلف صنعتوں اور شعبوں کو ان کی کھپت اور فروخت کے لیے پالیسی بنا چکی ہے لیکن لیکن کچھ سرکاری محکمے اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم ڈویژن اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو اس صورتحال کا نوٹس لینا پڑا کیونکہ مہنگی درآمدات کی وجہ سے قومی معیشت اور سب سے زیادہ صارفین مشکلات کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بلیک آؤٹ سے بچنے کے لیے مہنگے داموں ایل این جی خریدنے پر مجبور

انہوں نے کہا کہ چونکہ ایک کارگو $30.65 فی ایم ایم بی ٹی یو کی لاگت پر لایا جا رہا ہے اس لیے ہمیں خدشہ ہے کہ دسمبر میں کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) کی قیمت 8-9 روپے فی کلو تک بڑھ جائے گی۔

اگرچہ اس کا اثر صنعتوں پر پڑے گا، لیکن اس بات کا امکان نہیں کہ حکومت گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں