ڈسکہ ضمنی انتخاب سے متعلق ایک اور تہلکہ خیز رپورٹ جاری

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2021
یانات سے یہ انکشاف ہوا کہ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ بھی ریٹرننگ افسر کی معاونت کررہے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی
یانات سے یہ انکشاف ہوا کہ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ بھی ریٹرننگ افسر کی معاونت کررہے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ڈسکہ میں رواں سال فروری میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران 20 پریذائیڈنگ افسران کے پراسرار طور پر لاپتا ہونے کے بارے میں دو انکوائری رپورٹس جاری کردیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ای سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کو پہلے ہی اس بات کا علم تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور انہوں نے منصوبہ بندی کے مطابق چیزوں کو ہونے دیا‘۔

تاہم ڈان کی جانب سے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں کچھ تفصیلات بتائی گئی تھیں، جو کہ اس کے باضابطہ اجرا سے پہلے کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:‘باقاعدہ منصوبہ بندی’: پولیس،انتخابی عملہ ڈسکہ ضمنی انتخاب سبوتاژ کرنے کے ذمہ دار قرار

افسران کے خلاف 34 صفحات پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ضلعی انتظامیہ کسی نہ کسی سطح پر ضمنی الیکشن کے حوالے سے تمام ناپسندیدہ اور غیر قانونی واقعات میں شامل رہی‘۔

ان افسران میں سے زیادہ تر اب معطلی کا سامنا کررہے ہیں۔

دوسری انکوائری رپورٹ میں معلوم ہوا کہ انتخابی عہدیداروں اورحکومتی اہلکاروں نے اپنے ’غیر قانونی آقاؤں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیوں‘ کے طور پر کام کیا۔

فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا آغاز ڈسکہ ضمنی انتخاب میں دھاندلی، تشدد اور 20 پریزائیڈنگ افسران (پی اوز) کے لاپتا ہونے کے بعد کیا گیا تھا۔

بعد ازاں ای سی پی نے نتائج روک کر حلقہ این اے-75 میں دوبارہ ضمنی انتخاب کرانے کا حکم دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر نے اعتراف کیا کہ عمومی طور پر حکومت وقت ضمنی انتخاب میں دباؤ ڈالتی ہیں اور ’انہوں نے مجھ سے بھی رابطہ کیا‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی مشتبہ مقام پر موجودگی ان کی غیر جانبداری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

مزید پڑھیں:ڈسکہ انکوائری رپورٹ: وزیرا عظم استعفیٰ دے کر قانون کا سامنا کریں، شہباز شریف

حالانکہ انہوں نے واضح طور پر اس کی تردید کی ہے لیکن وہ مشتبہ مقام پر موجود نہ ہونے کو ثابت نہیں کرسکے کیوں کہ پی ٹی اے سے ان کے موبائل کے حاصل کیے گئے سی ڈی آر سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان کا سرکاری موبائل 19 اور 20 فروری کی درمیانی رات کے دوران کئی گھنٹوں تک اس علاقے میں استعمال ہوتا رہا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ واقعاتی شواہد اور اے ای اوز/پی اوز کے بیانات سے یہ انکشاف ہوا کہ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ بھی ریٹرننگ افسر کی معاونت کررہے تھے اور آنے والے واقعات سے باخبر تھے جس نے پولنگ کے دن امن و امان کی صورتحال کو تباہ کر دیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس کی روشنی میں انہوں نے اے ای اوز/پی اوز کو کچھ خاص ہدایات دیں جن کے ریکارڈ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کے ذہنوں کو الجھا کر انہیں خوفزدہ کر دیا۔

انتخابی اہلکاروں کو غیر قانونی ہدایات دے کر اے سی ڈسکہ دراصل اے ای اوز/پی اوز کو ہراساں کررہے تھے اور انہیں اپنی ہدایات کے مطابق عمل کرنے اور فرخندہ یاسمین اور حامد رضا کی ہدایات کی پیروی کرنے پر راضی کررہے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) نے جان بوجھ کر ریٹرننگ افسر کے پاس تاخیر سے سیکیورٹی پلان جمع کروایا تا کہ کسی بھی اعتراض، سوال اور جھول کی نشاندہی سے بچا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں:ڈسکہ انکوائری رپورٹ: آج سب سے بڑا امتحان ملک کی عدلیہ کا ہے، شاہد خاقان عباسی

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ضلعی پولیس کے سربراہ ہوتے ہوئے ڈی پی اور ایس پی (انویسٹی گیشن) سیالکوٹ انتخاب کے دن اپنے گھروں میں رہے اور ضمنی انتخاب کے انتہائی اہم موقع پر امن و عامہ کی صورتحال میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ لہٰذا یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دونوں کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ پولنگ والے دن شہر میں امن و امان کی خرابی کے حوالے سے کیا ہوگا، اسی لیے انہوں نے منصوبہ بندی کے مطابق جان بوجھ کر حالات کو خراب ہونے دیا اور امن و عامہ برقرار رکھنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا۔

ضلعی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے ڈی پی او اپنے ماتحتوں کی غلطیوں کا ذمہ دار ہوتا ہے کیونکہ وہ ضلع کی سیکیورٹی سے متعلق ہر کام کی منظوری دینے کا اختیار رکھتا ہے اور سیکیورٹی پلان جاری کرنے کا مجاز ہے۔

رپورٹ میں قرار دیا گیا کہ ضلعی پولیس کو بھی پولنگ کے دن ہونے والے واقعات کا علم تھا اور وہ جان بوجھ کر یا نیم دلی سے اس کی انجام دہی میں حصہ دار بن گئے کیونکہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات کو روکنے کے لیے ضلعی پولیس کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے جن کی نشاندہی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اپنی رپورٹ میں کی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اے ای اوز/ پی اوز کے دیے گئے بیانات سے انکشاف ہوا کہ ڈی پی او تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا اور انتخابی عمل کو خطرے میں ڈالنے اور نتائج کو حکومت کے حق میں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کرتا رہا جو کہ اس کی جانب سے ایک مجرمانہ فعل تھا۔

مزید پڑھیں:ڈسکہ کے 'لاپتا' الیکشن عہدیداران سے متعلق جیو فینسگ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

ای سی پی کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ، ڈی پی او نے اس طرح کے کسی بھی اقدام سے انکار کیا لیکن اسی تاریخ اور وقت پر اڈہ بیگو والا میں ان کی موجودگی ان کی دفاعی درخواست کی نفی کر رہی ہے‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی ٹی اے سے حاصل کردہ ان کے موبائل نمبر کی سی ڈی آر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف چند سرکردہ سیاستدانوں بلکہ تمام مشکوک کرداروں سے بھی رابطے میں تھے، مزید یہ کہ ان کی رہائش گاہ غیر قانونی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی تھی جہاں پر سرکاری افسران کی ملاقاتیں باقاعدگی سے ہوتی تھیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس ڈسکہ بھی اس وقت کی وزیر اعلیٰ پنجاب کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے اجلاسوں کا مرکز بن گیا تھا جہاں انہوں نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کی۔

تبصرے (0) بند ہیں