اسلام آباد میں ہندو مندر کا پلاٹ عوامی احتجاج کے بعد بحال

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2021
اپنے عقیدے کی پاسداری کرنا تمام شہریوں کا آئینی حق ہے اور اس سلسلے میں سی ڈی اے اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے، ترجمان سی ڈی اے - فائل فوٹو:وائٹ اسٹار
اپنے عقیدے کی پاسداری کرنا تمام شہریوں کا آئینی حق ہے اور اس سلسلے میں سی ڈی اے اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے، ترجمان سی ڈی اے - فائل فوٹو:وائٹ اسٹار

کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 میں ہندو مندر اور شمشان گھاٹ کی تعمیر کے لیے مختص پلاٹ منسوخ کرنے پر عوام کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کے چند گھنٹوں کے اندر شہر کے منتظمین کو ایک نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا جس کے تحت پلاٹ کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں پہلے ہندو مندر، شمشان گھاٹ اور کمیونٹی سینٹر کی تعمیر کے لیے سیکٹر ایچ-9/2 پر چار کنال 2016 میں ہندو برادری کو الاٹ کی گئی تھی۔

پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) میں ایک کیس کی سماعت کے دوران سی ڈی اے کے وکیل جاوید اقبال نے عدالت کو بتایا کہ شہری ایجنسی نے رواں سال فروری میں ہندو برادری کے لیے پلاٹ پر تعمیر شروع نہ کرنے پر اسے منسوخ کر دیا تھا۔

مزید پڑھیں: پیپلزپارٹی کا حکومت سے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر فوری شروع کرنے کا مطالبہ

اس کے بعد مرکزی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر عوام نے سی ڈی اے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے چند گھنٹوں میں نوٹیفکیشن واپس لینے اور پلاٹ بحال کرنے پر مجبور کر دیا۔

سی ڈی اے کے ترجمان سید آصف رضا نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں مختلف دفاتر، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کو الاٹ کی گئی تمام زمینوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی جن پر کوئی تعمیراتی کام شروع نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم شہری ایجنسی کے متعلقہ حکام نے کابینہ کے فیصلے کی غلط تشریح کی اور ہندو برادری کو الاٹ کیے گئے پلاٹ کو بھی منسوخ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ مندر کے لیے مختص زمین پر باؤنڈری وال بنانے کی منظوری پہلے ہی دی جا چکی ہے اس لیے وفاقی کابینہ کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پلاٹ ان لوگوں کی کیٹیگری میں نہیں آتا جہاں تعمیرات نہیں ہوئی تھی۔

ترجمان نے نئے الاٹمنٹ لیٹر کی ایک کاپی بھی شیئر کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’سیکٹر ایچ 9/2، اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے مندر، کمیونٹی سینٹر اور شمشان گھاٹ کے لیے الاٹ کیے گئے اس پلاٹ کی الاٹمنٹ درست ہے کیونکہ یہ متاثر نہیں ہوا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’مذکورہ بالا کے پیش نظر ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ مینجمنٹ 2 کا 15-2-2021 کا لیٹر اب واپس لے لیا گیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا سی ڈی اے کابینہ کے فیصلے کی غلط تشریح کرنے والوں کے خلاف کوئی انکوائری شروع کرے گا تو انہوں نے کہا کہ ’دراصل اس معاملے میں کوئی بری نیت شامل نہیں تھی، کابینہ کے فیصلے کی صرف غلط تشریح کی گئی تھی اور جب یہ معاملہ اعلیٰ حکام کے نوٹس میں لایا گیا تو فوری طور پر الاٹمنٹ بحال کر دی گئی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اپنے عقیدے کی پاسداری کرنا تمام شہریوں کا قانونی اور آئینی حق ہے اور اس سلسلے میں سی ڈی اے اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال جولائی میں دائیں بازو کے گروپس کے حکومت کی فنڈنگ سے ہندو مندر بنانے کے ارادے پر سخت ردعمل کے بعد سی ڈی اے نے اچانک کمیونٹی کو پلاٹ کے گرد چاردیواری تعمیر کرنے سے روک دیا تھا۔

تاہم یہ معاملہ دسمبر میں اس وقت حل ہو گیا جب شہر کے منتظمین نے ہندو برادری کو مجوزہ جگہ کے گرد باؤنڈری وال بنانے کی اجازت دی۔

دسمبر میں جاری کردہ اجازت نامے میں کہا گیا تھا کہ ’ایچ-9/2 میں ہندو برادری کے لیے شمشان گھاٹ کے ارد گرد باؤنڈری وال بنانے کی اجازت اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری، بلڈنگ کنٹرول ریگولیشنز 2020 کی شق 4.1.1 کے مطابق دی گئی ہے‘۔

مزید پڑھیں: مندر کے معاملے کو بعض مذہبی، سیاسی عناصر نے ایشو بنایا، نورالحق قادری

اس میں کہا گیا ہے کہ دیوار کی اونچائی 7 فٹ سے زیادہ نہیں ہوگی۔

اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے کوئی مندر اور شمشان گھاٹ نہیں ہے۔

ہندو برادری کی کافی کوششوں کے بعد اور ہیومن رائٹ کمیشن آف پاکستان کی ہدایت پر سی ڈی اے نے 2016 میں کمیونٹی کو چار کنال زمین الاٹ کی تھی۔

ماضی میں سید پور گاؤں میں ایک مندر تھا لیکن وہ دہائیوں پہلے ترک کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں