بنگلہ دیش: سابق چیف جسٹس کو منی لانڈرنگ کے الزام میں 11 سال قید کی سزا

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2021
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کی عمارت — فائل فوٹو: اے ایف پی
بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کی عمارت — فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈھاکا: بنگلہ دیش کے سابق چیف جسٹس کو بدعنوانی کے الزام پر غیر حاضری میں 11 سال قید کی سزا سنادی گئی جبکہ اپوزیشن جماعتوں اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس کے پسِ پردہ سیاسی محرکات ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 70 سالہ سریندرا کمار سنہا اس وقت سپریم کورٹ کے سربراہ تھے جب انہوں نے یہ فیصلہ جاری کیا تھا کہ پارلیمنٹ، ججز کو عہدے سے نہیں ہٹا سکتی۔

اس فیصلے کا وکلا نے خیر مقدم کیا تھا اور اسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش کی عدالت کا سابق چیف جسٹس کو گرفتار کرنے کا حکم

سریندرا کمار سنہا نے یہ الزام لگا کر کہ اس تاریخی فیصلے کے بعد انہیں عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، 2017 میں بنگلہ دیش چھوڑ دیا تھا اور اب وہ شمالی امریکا میں مقیم ہیں جہاں مبینہ طور پر انہوں نے پناہ لی ہے۔

ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کا ملک سے جانا ملک کی عدلیہ کی ساکھ کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا اور حکومت پر ان کے پیچھے پڑنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ڈھاکا یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر آصف نظرُل کا کہنا تھا کہ ’یہ بالکل واضح تھا کہ حکومت ان سے ناراض تھی اور ان کی ساکھ ختم کرنے پر ڈٹی ہوئی تھی‘۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: وزیر اعظم کے قتل کا منصوبہ بنانے والے 14 شدت پسندوں کو سزائے موت

پراسیکیوٹر خورشید عالم خان نے بتایا کہ ڈھاکا کی خصوصی عدالت کے جج شیخ نظم العالم نے جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے سریندرا کمار سنہا کو منی لانڈرنگ کے الزام میں 7 سال قید اور بھروسہ توڑنے کے الزام میں 4 برس قید کی سزا سنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس فیصلے سے یہ ثابت ہوگیا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں، غلط کام پر کسی کے خلاف بھی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے‘۔

16 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی والے سیکولر مسلم اکثریتی ملک میں سریندرا کمار سنہا پہلے ہندو چیف جسٹس تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے سابق رہنما کو پھانسی کی سزا

بعد ازاں انہوں نے ’قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور جمہوریت: ایک ٹوٹا ہوا خواب‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی تھی۔

کتاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک فوجی سیکیورٹی ادارے کی دھمکانے پر وہ استعفیٰ دینے اور ملک سے جانے پر مجبور ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں