پاکستان سے ہیکرز نے سابقہ افغان حکومت سے منسلک افراد کو نشانہ بنایا، فیس بک

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2021
ہدف بنائے جانے والوں میں کابل میں حکومت، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک افراد شامل تھے— فائل فوٹو: رائٹرز
ہدف بنائے جانے والوں میں کابل میں حکومت، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک افراد شامل تھے— فائل فوٹو: رائٹرز

فیس بک کے خطروں کی تحقیقات کرنے والوں نے کہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دوران پاکستان سے ہیکرز نے گزشتہ حکومت سے تعلق رکھنے والے افغان شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے فیس بک کا استعمال کیا۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی انڈسٹری میں ’سائیڈ کاپی‘ کے نام سے معروف گروپ نے میلویئر والی ویب سائٹس کے لنک شیئر کیے جس سے لوگوں کی ڈیوائسز کی نگرانی کی جاسکتی تھی۔

ہدف بنائے جانے والوں میں کابل میں حکومت، فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے منسلک افراد شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل نے افغان حکومت کے ای میل اکاؤنٹس بلاک کر دیے

فیس بک نے بتایا کہ اگست میں سائیڈ کاپی کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا کمپنی کا کہنا تھا کہ گروپ نے اہداف کو جھانسہ دے کر مشکوک لنکس پر کلک کرنے یا بدنیتی پر مبنی چیٹ ایپس کو ڈاؤن لوڈ کروانے کے لیے ’رومانوی جھانسے کے طور پر‘ نوجوان خواتین کی فرضی شخصیتیں تخلیق کیں۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ انہوں نے قانونی طور پر جائز ویب سائٹس میں مداخلت کی تاکہ لوگوں کی فیس بک اسناد میں رد و بدل کر سکیں۔

فیس بک کے سائبر جاسوسی کی تحقیقات کے سربراہ مائیک ولیانسکی نے کہا کہ ’خطرے کے محرک کے ہدف کے بارے میں قیاس آرائی کرنا ہمارے لیے ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، ہم نہیں جانتے کہ کس پر حملہ ہوا یا اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلا‘۔

مزید پڑھیں: فیس بک کی طالبان پر پابندی، ٹوئٹر فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار

فیس بک، ٹوئٹر انکارپوریشن، الفابیٹ انکارپوریشن کے گوگل اور مائیکروسافٹ کارپوریشن کی لنکڈ اِن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک پر طالبان کے قبضے کے دوران افغان صارفین کے اکاؤنٹ لاکڈ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

فیس بک کا کہنا تھا کہ ہیکنگ مہم میں اپریل سے اگست کے عرصے میں تیزی آئی لیکن کمپنی نے افغانستان میں اپنے ملازمین کے حفاظتی خطرات اور نیٹ ورک کی مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت کی وجہ سے پہلے اسے بے نقاب نہیں کیا۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ اس نے آپریشن کو ختم کرنے کے وقت امریکی محکہ خارجہ کے ساتھ معلومات شیئر کی تھیں جو بظاہر وسائل سے مالامال اور مستقل دکھائی دیا۔

تفتیش کاروں نے یہ بھی کہا کہ فیس بک نے گزشتہ ماہ دو ہیکنگ گروپس کے اکاؤنٹس کو غیر فعال کر دیا تھا جنہیں اس نے شام کی فضائیہ کی انٹیلی جنس سے منسلک قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’مشرق وسطیٰ پر سائبر حملوں میں اسرائیل ملوث ہے‘

فیس بک کا کہنا تھا کہ سیریئن الیکٹرانک آرمی کے نام سے ایک گروپ نے حکومت کے مخالف انسانی حقوق کے رضاکاروں، صحافیوں اور دیگر افراد کو نشانہ بنایا جبکہ اے پی ٹی-سی-37 نامی گروپ نے فری سیریئن آرمی اور اپوزیشن قوتوں می شامل ہونے والے سابق فوجیوں کو نشانہ بنایا۔

کمپنی کے عالمی خطرات کو روکنے والے شعبے کے سربراہ ڈیوڈ اگرانووِچ نے کہا کہ شام اور افغانستان کے کیسز ظاہر کرتے ہیں کہ سائبر جاسوسی گروپوں نے تنازعات کے دوران غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اٹھایا جب لوگ ہیرا پھیری کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں