پنجاب کی لیبارٹریز متبادل ادویات کی تصدیق کرنے میں ناکام

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2021
سرکاری لیبز کی سربراہی کوالیفائیڈ فارماسسٹ کے بجائے ناتجربہ کار اہلکار کر رہے ہیں — فائل فوٹو: حسیب بھٹی
سرکاری لیبز کی سربراہی کوالیفائیڈ فارماسسٹ کے بجائے ناتجربہ کار اہلکار کر رہے ہیں — فائل فوٹو: حسیب بھٹی

لاہور: پنجاب کی سرکاری لیبارٹریز میں ادویات کی غیر ضروری سیمپلنگ اور متبادل ادویات کے اجزا کی ٹیسٹنگ/تجزیے کی ناقص تکنیکوں نے رپورٹنگ میکانزم کے مستند ہونے پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایسی متعدد شکایات سامنے آئی ہیں کہ حکومت پنجاب کی 5 لیبارٹریز کی تیار کردہ رپورٹس کے نتائج کی شکایات پر جب دوبارہ ٹیسٹ کیے گئے تو قومی ادارہ صحت نے ان کی نفی کردی۔

صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ (پی سی کیو بی) کے ایک عہدیدار نے اندرونی کہانی سامنے لاتے ہوئے کہا کہ 2 بڑی وجوہات کی بنا پر ڈرگ ٹیسٹنگ کے معیار پر سمجھوتہ ہوا اور شکایات رپورٹ نہیں کی جا رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب بھر کی مارکیٹوں میں دل کے مریضوں کیلئے انتہائی اہم دوا کی قلت

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی لیبارٹریز متبادل ادویات کے اجزا چیک کرنے میں ناکام رہیں جس کی وجہ سے پنجاب کی لیبارٹریوں کی ڈرگ ٹیسٹنگ رپورٹس کو قومی ادارہ صحت میں چیلنج کرنے کی شرح 70 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادویات کے نمونے لینے کا کام غیر ضروری طور پر کیا جارہا ہے اور سرکاری لیبز کی سربراہی کوالیفائیڈ فارماسسٹ کے بجائے ناتجربہ کار اہلکار کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز ہربل، ہومیوپیتھک اور غذائی مصنوعات کے اجزا کا ٹیسٹ/ تجزیہ کرنے کے لیے زیادہ تر برطانوی اور امریکی فارماکوپیاز استعمال کر رہی ہیں جس سے وہ اکثر متبادل ادویات کی جانچ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ متبادل ادویات کی جانچ صرف متبادل ادویات بنانے والوں کے تیار کردہ طریقوں سے کی جا سکتی ہے جسے مینوفیکچررز اسپیسیفکیشنز کہتے ہیں۔

مزید پڑھیں:پنجاب: ملیریا کی ادویات سے وائرس کے مریضوں کے علاج کی منظوری

انہوں نے کہا کہ متبادل ادویات تیار کرنے والوں سے ان طریقہ کار کا مطالبہ کرنے کے بجائے ہماری ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز ان اشیا کو برطانوی یا امریکی فارما کوپیاز استعمال کر کے ٹیسٹ کر رہی ہیں اور یہ رپورٹ کر کے کہ دوا میں ایلوپیتھک اجزا ہے ان ادویات کو ’غیر رجسٹرڈ‘ قرار دے دیتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں ادویات کی غیر ضروری سیمپلنگ بھی وسائل کو نقصان پہنچا رہی ہے اور عدالتوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہی ہے۔

حالیہ بین الاقوامی رپورٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکا میں فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی ڈرگ ٹیسٹنگ کے لیے سالانہ 28 ہزار نمونے اکٹھے کرتی ہے۔

دوسری جانب لاہور کی لیبارٹریز سالانہ 40 ہزار نمونے اکٹھے کرتی ہیں، غیر ضروری قانونی چارہ جوئی نے متبادل ادویات کی صنعت کو سخت متاثر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتِ پنجاب کی غفلت کے باعث کینسر کے مریضوں کا مفت علاج رک گیا

عہدیدار نے لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایک ڈرگ اسکینڈل کا ذکر کیا جس میں ناقص ادویات کے استعمال سے متعدد مریض انتقال کر گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ قدرتی جڑی بوٹیوں میں ایلوپیتھک دواؤں کے اجزا ہوتے ہیں جیسے ایفیڈرا ولگیرس میں ایفیڈرین کے اجزا لیکن متبادل ادویات بنانے والے ایک بے بس کے خلاف ’بے گناہ‘ جرم کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز میں فارمولیشن سائنسدانوں پر مشتمل ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سیکشنز قائم کرنے کی سخت ضرورت ہے جو ماہرانہ رائے دے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت پنجاب میں 30 پی ایچ ڈی فارماسسٹ کو دیہی صحت کی سہولیات اور سرکاری ہسپتالوں میں غیر متعلقہ عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی اور لیبارٹریز میں اسامیاں تشکیل دے کر ان اعلیٰ قابلیت اور تجربہ کار فارماسسٹ کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں