مقبوضہ کشمیر: بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کے قتل پر مکمل ہڑتال

19 نومبر 2021
کل جماعتی کانفرنس کی کال پر سری نگر میں مکمل ہڑتال کی گئی—فوٹو: اے پی
کل جماعتی کانفرنس کی کال پر سری نگر میں مکمل ہڑتال کی گئی—فوٹو: اے پی

مقبوضہ جموں اور کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کارروائی کے دوران دو شہریوں کے قتل کے خلاف مکمل ہڑتال کی گئی۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سری نگر میں رواں ہفتے کے شروع میں پولیس کی کارروائی کے دوران دو شہری مارے گئے تھے اور حکام نے جلد بازی میں مضافات میں ان کی تدفین کردی تھی جبکہ پولیس کا مؤقف تھا کہ وہ جنگجووں سے فائرنگ کے تبادلے کے دوران جاں بحق ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: بھارتی پولیس کی مقبوضہ کشمیر میں کارروائی، 4 کشمیری جاں بحق

شہریوں کے قتل پر مقبوضہ وادی میں غم و غصہ پھیل گیا اور لواحقین کا اصرار ہے کہ ان کا جنجگووں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور سیکیورٹی فورسز نے بے گناہ قتل کیا ہے۔

مقتولین کی تدفین اندھیرے میں کی گئی—فوٹو: اے ایف پی
مقتولین کی تدفین اندھیرے میں کی گئی—فوٹو: اے ایف پی

لواحقین کی جانب سے ان کی اسلامی طریقے سے تدفین کے لیے لاشیں واپس کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مقامی انتظامیہ نے جمعرات کو دونوں شہریوں محمد الطاف بھٹ اور مدثر احمد گل کی قبر کشائی اور لاشیں لواحقین کے حوالے کرنے سے قبل قتل کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

سری نگر میں رات گئے جب لاشیں حوالے کی گئیں تو دردناک مناظر تھے اور لواحقین شدت غم سے نڈھال تھے۔

مقتولین کی دوبارہ تدفین کے لیے ہزاروں کی تعداد میں شہری علی الصبح جمع ہوئے اور کئی افراد نے آزادی کے نعرے لگائے اور دیگر افراد نے قرآن خوانی کی۔

الطاف بھٹ کی بھتیجی صائمہ بھٹ نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘آپ کی موت نے ہمیں مکمل طور پر توڑ دیا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ ہم اس غم سے نکل پائیں گے’۔

مقتولین کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ حکام نے انہیں ہدایت کی تھی تدفین رات کے اندھیرے میں کی جائے اور لوگوں کو جمع ہونے کی اجازت نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: چھاپے میں قتل افراد کے اہلخانہ کا لاشیں حوالے کرنے کا مطالبہ

الطاف بھٹ کے ایک رشتہ دار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے خاندان اور ان کے بچوں کو ان کی آخری ایک جھلک کا وقت دیا گیا تھا۔

بھارت سے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کل جماعتی حریت کانفرنس کے مطالبے پر مقبوضہ وادی بھر میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی اور احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔

سری نگر میں دکانیں، کاروباری مقامات اور پبلک ٹرانسپورٹ بند رہا اور سڑکوں پر صرف چند کاریں نظر آئیں۔

اسی طرح مقبوضہ وادی کے دیگر علاقوں میں بھی معمولات زندگی بند رہیں۔

پولیس اور پیراملیٹری فورسز کو مختلف مقامات اور مقتولین کے گھروں کے قریب تعینات کردیا گیا تھا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 کے بعد اس طرح کے بڑے پیمانے پر ہڑتال ممکن نہیں تھی کیونکہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرکے براہ راست انتظامات سنبھال لیے تھے لیکن کشیدگی کو دیکھتے ہوئے حکام نے اس موقع پر مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارتی فورسز نے لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو گرفتار کرلیا

خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے شروع میں مقتولین کی لاشیں لواحقین کے حوالے سے کرنے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے بھارت مخالف جنگجووں کی مدد روکی جاسکتی ہے کیونکہ ان کے جنازوں میں عام طور پر ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ 16 نومبر کو بھارتی سیکیورٹی فورسز نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں کارروائی کے دوران 4 افراد کو قتل کردیا تھا اور ان کا دعویٰ تھا کہ ان میں سے دو جنگجو تھے جبکہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران دو شہری بھی مارے گئے۔

مقبوضہ ریاست کے پولیس سربراہ وجے کمار کا کہنا تھا کہ مبینہ انتہاپسندوں نے پولیس اور سپاہیوں پر فائرنگ کی جب انہوں نے ان کے چھپے ہونے کی خفیہ اطلاع پر سری نگر میں ایک کاروباری سینٹر کا گھیراؤ کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ فائرنگ کے تبادلےکے دوران دو شہری اور دو مبینہ جنگجو مارے گئے جبکہ سہریوں کے لواحقین کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجی انہیں خون ریز واقعے کے دوران انسانی ڈھال کےطور پر استعمال کر رہے تھے۔

عینی شاہدین اور قتل ہونے والے دو شہریوں کے لواحقین نے پولیس کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتیوں فوجیوں نے علاقے کا محاصرہ کرکے شاپنگ سینٹر کےمالک اور تاجر کو اٹھایا تھا اور درجنوں شہریوں کی موجودگی میں انہیں عمارت کے اندر لے گئے تھے۔

جس کے بعد بھارتی فورسز کے ہاتھوں جاں بحق دو شہریوں کے درجنوں رشتہ داروں نے بدھ کو مرکزی شہر میں احتجاج کیا تھا اور حکام سے لاشیں واپس کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ تدفین کر سکیں۔

بھارتی قابض فورسز نے اگلے روز متنازع پولیس چھاپے کے دوران جاں بحق افراد کی لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کرنے والے افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق مسلح پولیس نے سرینگر میں مظاہرے کے مقام کی لائٹیں بند کرنے کے بعد مظاہرین پر دھاوا بول دیا اور مظاہرین کو گھسیٹ کر پولیس کی گاڑی میں ڈال دیا اور اس دوران مقتولین کے اہل خانہ سخت سردی میں نعرے بازی کرتے رہے۔

سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ متاثرین میں سے ایک شخص نے پولیس کی بندوق کا رخ اپنے سینے کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے گولی مارو دہشت گردو‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں