گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے خلاف درخواست دائر

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2021
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری (کل) پیر کو درخواست پر سماعت کریں گے—فائل فوٹو
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری (کل) پیر کو درخواست پر سماعت کریں گے—فائل فوٹو

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) میں درخواست دائر کردی گئی ہے کہ متنازع حلف نامہ کے بعد سپریم کورٹ آف گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم کو ادا کی گئی تمام تنخواہیں واپسی لی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جج رانا محمد شمیم نے 16 نومبر کو بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج سے کہا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت میں تاخیر کرے۔

مزید پڑھیں: رانا شمیم کے نواز شریف سے ’براہِ راست رابطے‘ ہیں، احمد حسن رانا

اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر چوہدری محمد اکرم نے اپنی درخواست میں رانا شمیم اور سیکریٹری قانون و انصاف اور داخلہ کو مدعا علیہ قرار دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری (کل) پیر کو درخواست پر سماعت کریں گے۔

درخواست کے مطابق سابق چیف جج کا حلف نامہ آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ہر شہری کو ریاست کے ساتھ وفادار اور آئین کا فرمانبردار ہونا ضروری ہے۔

ایڈووکیٹ چوہدری محمد اکرم نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ رانا شمیم نے عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی جو ریاست کا اہم ستون ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سابق جج پر الزامات: انصار عباسی سمیت 4 افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ سابق چیف جج رانا محمد شمیم کے خلاف کارروائی کی جائے اور وفاقی حکومت کو ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی ہدایت کی جائے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ رانا شمیم نے اپنے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے ان سے سابق چیف جج کا خطاب استعمال کرنے سے روکا جائے۔

اس کے علاوہ انہیں مستقبل میں کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔

مزید پڑھیں: جسٹس ثاقب نثار پر الزام، سابق جج رانا شمیم اسلام آباد ہائیکورٹ طلب

درخواست میں سابق چیف جسٹس جج رانا محمد شمیم کی بطور چیف جج گلگت بلتستان کی تنخواہوں کی وصولی کی بھی استدعا کی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ پہلے ہی سابق چیف جج رانا محمد شمیم جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر چکے ہیں۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 15 نومبر کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔

مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزارنے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔

رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔

مزید پڑھیں: ’پاناما جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں کو چوہدری نثار، نواز شریف نے شامل کروایا‘

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

تاہم ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں رپورٹ کی اشاعت کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے معاملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا اور سوال کیا تھا کہ اگر نواز شریف جیل جا سکتے ہیں تو ثاقب نثار کیوں نہیں جا سکتے۔

تبصرے (0) بند ہیں