نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر بدستور وکالت نامے پر دستخط سے انکاری

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2021
دوران سماعت بار بار بولنے پر عدالت نے مرکزی ملزم کو واپس لے جانے کا حکم دیا — فائل فوٹو: ٹوئٹر
دوران سماعت بار بار بولنے پر عدالت نے مرکزی ملزم کو واپس لے جانے کا حکم دیا — فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد کی سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس میں گھر کی مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے کی درخواست پر فیصلہ کرلیا جبکہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے آج بھی وکالت نامے پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔

ملزمان کے وکلا کی استدعا پر کیس کی جلد سماعت ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کی۔

عدالت میں ظاہر جعفر سمیت دیگر تمام ملزمان کو لایا گیا اور ملزمان کے وکلا اسد جمال، اکرم قریشی، شہزاد قریشی، سجاد بھٹی، ملک شہباز رشید، میاں سیف اللہ اور بشارت اللہ عدالت میں پیش ہوئے۔

ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے عدالت سے مکمل سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مکمل ویڈیو فراہم کرنے کا حکم دیا ہے لیکن پولیس کی جانب سے ویڈیو کے صرف کچھ کلپس فراہم کیے گئے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے سی سی ٹی وی ویڈیو مکمل فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ مدعی کے وکیل کدھر ہیں تو وکیل بابر حیات نے بتایا کہ وہ سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔

دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر جعفر سے وکیل ذوالقرنین سکندر سلیم کی جانب سے وکالت نامہ دستخط کروانے کی کوشش کی گئی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: جرح کے دوران مداخلت پر ظاہر جعفر کو پھر کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا

تاہم ملزم نے ایک مرتبہ پھر وکالت نامے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وکیل سے الگ ملاقات کرنا چاہتا ہے۔

وکلا نے استغاثہ کے گواہ محمد جابر کمپیوٹر آپریٹر کے بیان پر جرح مکمل کی، اس دوران مرکزی ملزم بار بار بولنے کی کوشش کرتا رہا۔

عدالت میں سماعت کے دوران مرکزی ملزم نے مالی کے بھائی حسین کے ساتھ مکالمہ کیا اور پوچھا کہ آج آپ پانی کیوں نہیں لے کر آئے۔

دوران سماعت بار بار بولنے پر عدالت نے مرکزی ملزم کو واپس لے جانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ رواں سال 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

واقعے کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جاکر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

بعد ازاں 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا تھا۔

9 نومبر کو نور مقدم قتل کیس میں استغاثہ نے جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ اسلام آباد سیشن کورٹ میں جمع کرادیا جس میں رواں برس کے آغاز میں اسلام آباد کے ایک گھر میں خاتون کے قتل سے قبل کے واقعات کی ویڈیوز ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں