عوامی سروے: پاکستان غلط سمت میں گامزن ہے، 87فیصد لوگوں کی رائے

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2021
تحقیق کے مطابق ملک کی مجموعی سمت کے بارے میں عوامی جذبات اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں— فائل فوٹو: ڈان
تحقیق کے مطابق ملک کی مجموعی سمت کے بارے میں عوامی جذبات اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں— فائل فوٹو: ڈان

پیرس کی تحقیقی اور کنسلٹنگ فرم ’اپسوس‘ کی جانب سے نومبر میں کیے گئے صارفین کے اعتماد کے سروے کے مطابق زیادہ تر پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملک غلط سمت میں گامزن ہے۔

سروے میں ملک بھر سے 18 سال سے زائد عمر کے ایک ہزار 110 مرد اور خواتین جواب دہندگان نے رائے دی جس میں 87 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ پاکستان غلط سمت میں گامزن ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کاروباری اعتماد میں 'ریکارڈ بہتری' آئی ہے، سروے

یہ سوچ رکھنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جہاں ستمبر 2021 میں 66 فیصد شرکا کا ماننا تھا کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے اور یہ اگست 2019 کے بعد اس طرح کی سوچ رکھنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

اس تحقیق کے مطابق ملک کی مجموعی سمت کے بارے میں عوامی جذبات اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

افراط زر سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ

سروے میں مہنگائی کو پاکستانیوں کے لیے پریشان کن مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔

43 فیصد جواب دہندگان نے مہنگائی میں اضافے کو سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ قرار دیا اور یہ شرح ستمبر 2021 کے سروے کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تاریخی مہنگائی، بے روزگاری عمران خان کی تبدیلی کا اصل چہرہ ہے، بلاول

سروے میں سے 14 فیصد نے کہا کہ بے روزگاری سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ ہے، اس کے بعد 12 فیصد نے بڑھتی ہوئی غربت پر تشویش کا اظہار کیا اور 8 فیصد نے کورونا وائرس کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا، صرف پانچ فیصد کا خیال تھا کہ ٹیکسوں میں اضافہ سب سے گمبھیر مسئلہ ہے جبکہ چار فیصد نے کہا کہ روپے کی گرتی ہوئی قدر سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

ان میں سے 3فیصد نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ قرار دیا اور دو فیصد نے کہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ وہ مسئلہ ہے جس نے انہیں سب سے زیادہ پریشان کیا، دو فیصد نے بدعنوانی، رشوت ستانی اور اقربا پروری کو سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ قرار دیا، ایک فیصد نے کہا کہ ریاستی محکموں کی ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سب سے بڑا مسئلہ ہے اور کئی لوگوں نے قانون اور انصاف کے نفاذ میں ناکامی کو سب سے بڑے مسئلے سے تعبیر کیا۔

اگست 2019 میں کیے گئے سروے کے نتائج کا موازنہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ مہنگائی اور بے روزگاری پاکستانیوں کے لیے گزشتہ دو برسوں سے سب سے زیادہ پریشان کن مسائل رہے ہیں، اس عرصے کے دوران سروے کے اوسط نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ 72 فیصد جواب دہندگان نے مہنگائی کو سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ قرار دیا، 64 فیصد نے بے روزگاری، 50 فیصد غربت میں اضافے، 33 فیصد نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور 29 فیصد نے اضافی ٹیکسوں کے بوجھ کو مسئلہ قرار دیا۔

ملازمت کے تحفظ کا تصور کم ہوتا جا رہا ہے

اس ماہ کے سروے کے مطابق اگست 2019 کے بعد سے ملک میں ملازمتوں کے تحفظ کا تصور انتہائی کم رہ گیا ہے۔

سروے میں حصہ لینے والے 12 فیصد شرکا ملازمت کی حفاظت کے حوالے سے پراعتماد تھے جہاں اس سے قبل ستمبر میں کیے گئے سروے میں یہ تعداد 26فیصد تھی۔

اس ماہ کے سروے میں تقریباً 90 فیصد شرکا ملک میں ملازمت کی حفاظت کے بارے میں پراعتماد نہیں جہاں ستمبر کے سروے میں 74 فیصد افراد کا ایسا ماننا تھا اور یہ تعداد اگست 2019 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان بار کونسل کا مہنگائی کے خلاف مہم چلانے کا منصوبہ

سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ پچھلے ایک سال کے دوران 54 فیصد پاکستانی خود بے روزگار ہوئے یا انہوں نے اپنے پیاروں کے ملازمت گنوانے کے بارے میں اطلاع دی اور یہ صورتحال 2020 کے بعد سے ایسی ہی ہے۔

سروے میں مزید کہا گیا کہ جواب دہندگان میں سے صرف 15 فیصد پیسے بچانے اور مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں پراعتماد محسوس کرتے ہیں اور 10 میں سے 9 پاکستانی بڑی اشیا جیسے کار، گھر وغیرہ کی خریداری میں اعتماد محسوس نہیں کرتے۔

سروے رپورٹ میں کہا گیا کہ اسی طرح 90 فیصد سے زیادہ پاکستانی دیگر گھریلو اشیا کی خریداری کے دوران بے چینی محسوس کرتے ہیں۔

معاشی صورتحال بدترین گراوٹ کا شکار

معیشت کی حالت کے بارے میں پوچھے جانے پر صرف 5 فیصد جواب دہندگان نے اسے مضبوط قرار دیا، 40 فیصد سے زیادہ نے، اسے کمزور اور 50 فیصد سے زیادہ کا خیال تھا کہ یہ نہ مضبوط ہے اور نہ ہی کمزور ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’آئندہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح واضح طور پر بلند رہے گی‘

64 فیصد سے زائد شرکا کی ایک بڑی اکثریت نے اگلے 6 مہینوں میں معیشت کمزور رہنے کی توقع کی اور صرف 12 فیصد معیشت کے مضبوط ہونے کے بارے میں پر امید تھے، دریں اثنا 24 فیصد شرکا نے کہا کہ آنے والے چند مہینوں میں معیشت نہ تو کمزور ہوگی اور نہ ہی مضبوط ہوگی۔

اس وجہ سے سروے رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ستمبر 2021 میں بلند ترین سطح تک پہنچنے کے بعد موجودہ معاشی حالات بدترین گراوٹ پر پہنچ چکی ہے۔

ستمبر کے سروے میں تقریباً 20 فیصد شرکا نے اس وقت کے معاشی حالات کو مضبوط قرار دیا تھا۔

مزید یہ کہ اس ماہ کے سروے میں صرف پانچ فیصد شرکا نے اپنی موجودہ مالی حالات کو مضبوط قرار دیا، سروے میں شریک 40 فیصد سے زیادہ افراد نے کہا کہ ان کی ذاتی مالی صورتحال کمزور ہے اور 50 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کی مالی صورتحال نہ کمزور ہے اور نہ ہی مضبوط ہے۔

مزید پڑھیں: ایک عام پاکستانی کی زندگی سے ڈالر کا کتنا تعلق ہے؟

اسی طرح ان میں سے صرف 13 فیصد اگلے 6مہینوں میں اپنی مالی حالت بہتر ہونے کے بارے میں پرامید تھے جب کہ 63 فیصد میں اس حوالے سے اعتماد کی کمی تھی اور 24 فیصد کا خیال تھا کہ ان کی ذاتی مالی صورتحال نہ تو مضبوط ہوگی اور نہ ہی کمزور۔

سروے رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران صارفین کے اعتماد کا انڈیکس پاکستان میں 12 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 27.3 تک پہنچ گیا جو کہ پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی منڈیوں مثلاً برازیل، چین، روس، بھارت، جنوبی افریقہ اور ترکی میں سب سے کم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں