عاصمہ جہانگیر کانفرنس: منتظمین کی پارٹی ایجنڈے کے فروغ سے متعلق الزامات کی تردید

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2021
منتظمین نے کہا کہ کانفرنس میں کسی کو بھی قانون کی خلاف ورزی کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا — فوٹو: وائس ڈاٹ پی کے ٹوئٹر
منتظمین نے کہا کہ کانفرنس میں کسی کو بھی قانون کی خلاف ورزی کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا — فوٹو: وائس ڈاٹ پی کے ٹوئٹر

عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے منتظمین نے پارٹی ایجنڈے کو فروغ دینے سے متعلق حکومت کے الزامات کی تردید کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے لاہور میں منعقدہ تقریب ’تیسری عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘ پر بحث چھڑ گئی ہے جس کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے منتظمین پر الزامات لگائے ہیں۔

ایک بیان کے مطابق کانفرنس کا انعقاد کروانے والی کمیٹی نے مہینوں جدوجہد کی اور پاکستان میں موجودہ وقت میں چیلنجز کے دوران انسانی حقوق کے اہم شعبوں کے خلاف یہ ایجنڈا تشکیل دیا، کانفرنس عاصمہ جہانگیر (اے جے) فاؤنڈیشن، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے اشتراک سے منعقد کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ’بیرونی ایجنڈا‘ بڑھانے سے متعلق بیان مسترد

کانفرنس کے دوران خطابات کے 21 سیشنز تھے جس میں اختلاف رائےکا حق، افغان بحران اور اس کے اثرات، کشمیر تنازع: کشمیریوں کو نظر انداز کرنا، انصاف کے دوران جواز پیش کرنے کا حق نہ دینا، خواتین پر تشدد، بچوں کے حقوق، مذہب اور ایمان کی آزادی، معیشت کے حالات اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں درپیش چیلنجز سے متعلق موضوعات پر گفتگو کی گئی تھی۔

اے جے فاؤنڈیشن کا کہنا تھا کہ روایت کے مطابق اختتامی تقریر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کرنی تھی، کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری 2018 میں منعقدہ پہلی کانفرنس سے خطاب کر چکے ہیں۔

سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 2019 میں کانفرنس سےخطاب کیا تھا۔

بیان کے مطابق تینوں کانفرنسز میں اسٹیک ہولڈرز کو پلیٹ فارمز فراہم کیے گئے تھے، جس میں تمام اہم سیاسی جماعتوں کے رہنما شامل ہوئے اور انہوں نے قانون کی حکمرانی اور بنیادی آزادی کے تحفظ پر اثر انداز ہونے والے مسائل پر بات کی۔

اے جے فاؤنڈیشن نے حکومتی دعووں کی سختی سے مذمت کی کہ کانفرنس کے ذریعے پارٹی کے ایجنڈے کو مزید فروغ دیا گیا ہے اور غور کیا گیا کہ اس سے قبل ہونے والی کانفرنسز میں ایسے الزامات سامنے نہیں آئے جب بلاول بھٹو زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے تقریب سے خطاب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کا خطاب روکنے کی کوشش آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار

انہوں نے کہا کہ کانفرنس میں حکمران جماعت کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا گیا تھا، ان میں سے متعدد وہ تھے جو تینوں کانفرنس میں خطاب کرچکے ہیں جبکہ دیگر نے دعوت پر انکار کردیا تھا۔

انہوں نے دوہرایا کہ کانفرنس میں کسی کو بھی قانون کی خلاف ورزی کے لیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

منتظمین کا کہنا تھا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے بہت سے افراد کی تقاریر ٹیلی ویژن پر نشر کرنے پر پابندی عائد کی ہے لیکن عوامی اجتماعات پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔

فاؤنڈیشن نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس سے قبل بھی تقریب سے خطاب کیا تھا اور یہ بہت افسوس ناک بات تھی کہ ان کی تقریر کو بلیک آؤٹ کرنے کے لیے انٹرنیٹ کیبلز کو غیر فعال کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ عمل بذات خود پاکستان میں موجودہ حکومت کے دور میں آزادی رائے کی حالت کی نشاندہی کرتا ہے، اس ضمن میں پاکستان 180 ممالک میں 145ویں نمبر پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’آزاد عدلیہ اور پارلیمنٹ کے لیے آزاد میڈیا ضروری ہے‘

اے جے فاؤنڈیشن کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں سول سوسائٹی کے ساتھ کھڑی ہے تاکہ کائنات کے اصولوں کے ذریعے بلاخوف و خطر انسانی حقوق کی حفاظت کی جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کسی مقررین کو مدعو کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے انتقام کی پیروی نہیں کریں گے اور ہمیشہ ایک آزاد پلیٹ فارم کی طرح کام کریں گے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس بات پر تقریباً تمام بار کونسل متفق ہیں کہ آزادی رائے کا حق ایک مفرور کو بھی ہے اور یہ حق قانون نے دیا ہے، تاہم اس کانفرنس کو کسی جماعت کی سیاست میں شامل کرنا مایوس کُن ہے۔

منتظمین کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل اس طرح کا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا جہاں اپوزیشن رہنماؤں نے اختتامی تقاریر بھی کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں