بھارت میں متنازع زرعی اصلاحات کا قانون منسوخ

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2021
کسانوں کے گروپ رہنما نے کہا کہ ہم احتجاج جاری رکھیں گے — فوٹو: اے ایف پی
کسانوں کے گروپ رہنما نے کہا کہ ہم احتجاج جاری رکھیں گے — فوٹو: اے ایف پی

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی ستمبر 2020 میں منظور ہونے والے متنازع زرعی قوانین منسوخ کرنے پر مجبور ہوگئے جن کے خلاف کسانوں نے ایک برس تک ملک گیر طویل احتجاج کیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی قانون سازوں نے زرعی قانون کو منسوخ کر دیا جسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے ایک بڑی تبدیلی اور ان کی ناکامی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارتی حکومت کا متنازع زرعی قوانین واپس لینے کا فیصلہ

زرعی قوانین کی منسوخی کا بل نریندر مودی کے ٹیلی ویژن قومی خطاب میں تینوں قوانین کو واپس لینے کے حیران کن فیصلے کے اعلان کے 10 روز بعد پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا میں مختصر بحث کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔

احتجاج کرنے والے کسان گزشتہ برس نومبر سے دارالحکومت نئی دہلی کے باہر عارضی کیمپوں میں بیٹھ کر ان قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، انہیں خدشہ تھا کہ ان کی آمدنی میں بڑی کمی واقع ہو گی۔

منسوخی بل کو باضابطہ طور پر نافذ کرنے سے پہلے صدر کی جانب سے دستخط کی ضرورت ہوگی لیکن کسانوں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کے مظاہرے جاری رہیں گے۔

ٹریکٹروں، جیپوں اور کاروں پر سوار ہزاروں پرجوش کسانوں نے سبز اور سفید جھنڈے لہرائے اور اپنی جیت کا جشن منایا لیکن ساتھ ہی واضح کیا کہ حکومت نے ان کے تمام مطالبات پورے نہیں کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: اترپردیش میں لاکھوں کسانوں کا زرعی قوانین کے خلاف احتجاج

کسان رہنما راکیش ٹکائیت نے کہا کہ انہیں گندم اور چاول جیسی کچھ ضروری فصلوں کے لیے یقینی قیمتوں کی حکومتی یقین دہانیوں کی ضرورت ہے۔

یہ ایک ایسا نظام ہے جو 1960 کی دہائی میں بھارت کو خوراک کے ذخائر کو بڑھانے اور قلت کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت، کسانوں کا احتجاج ختم کرنے پر غور کرنے سے پہلے ان مطالبات کو حل کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرے۔

نریندر مودی کی انتہائی دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پہلے ہی اترپردیش میں برسر اقتدار ہے لیکن ڈوبتی ہوئی معیشت اور وبائی امراض سے متعلق حکومت کے ناقص فیصلوں کے باعث شدید دباؤ میں ہے۔

اگر کسان حکمران جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں تو اس سے نہ صرف دوسری مدت کے لیے ریاستی حکومت بنانے کے امکانات کم ہو جائیں گے بلکہ 2024 کے قومی انتخابات میں پارٹی کے بھاری اکثریت حاصل کرنے کے امکانات بھی کمزور ہو جائیں گے۔

مزید پڑھیں: بھارت: شدید احتجاج کے باوجود متنازع زرعی بل قانون بن گیا

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر مقبول زرعی اصلاحات کو واپس لینے کے حیران کن اقدام کے پیچھے آنے والے انتخابات ایک بڑی وجہ ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا یہ کارگر ثابت ہوگا۔

حکومت نے ابتدائی طور پر اصرار کیا تھا کہ نئی قانون سازی کی، جو کہ بے ضابطہ مارکیٹ اور زراعت میں نجی شعبے کے زیادہ کنٹرول کا راستہ کھولے گی، بھارتی کاشتکاری کو جدید بنانے کے لیے فوری طور پر ضرورت تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں