ٹک ٹاک نے متنازع مواد ہٹانے کے لیے درخواست سینٹر متعارف کرادیا

04 دسمبر 2021
پاکستان میں بھی متعدد بار ٹک ٹاک کو بند کیا جا چکا ہے—فائل فوٹو: فیس بک
پاکستان میں بھی متعدد بار ٹک ٹاک کو بند کیا جا چکا ہے—فائل فوٹو: فیس بک

شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک نے مواد کی وجہ سے مسلسل پابندیاں لگنے کے بعد بالاآخر ٹرانسپیرنسی اور جوابدہی کے لیے متنازع مواد کو ہٹانے کے لیے درخواست سینٹر متعارف کرادیا۔

نامناسب اور متنازع مواد کی وجہ سے ٹک ٹاک کو پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک جن میں امریکا اور بھارت بھی شامل ہیں، وہاں تنقید کا سامنا رہتا ہے۔

کئی ممالک ٹک ٹاک کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں جب کہ متعدد ممالک اسے اخلاقیات کا خطرہ قرار دیتے رہے ہیں۔

پاکستان میں بھی ٹک ٹاک متنازع، نامناسب اور عریاں مواد کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے اور گزشتہ دو سال کے دوران متعدد بار اس پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

چند ماہ تک بند رہنے کے بعد حال ہی میں ٹک ٹاک کو پاکستان میں اس شرط پر کھولا گیا تھا کہ وہ متنازع اور نامناسب مواد کے خلاف مزید کارروائیاں جاری رکھے گا۔

اور اب ٹک ٹاک نے متنازع مواد کو ہٹانے کے لیے درخواست سینٹر قائم کردیا، جس کے تحت کوئی بھی شخص، ادارہ، حکومت، سیاسی جماعت یا لوگوں کا گروہ پلیٹ فارم کو مواد ہٹانے کی درخواست دے سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی اے نے ٹک ٹاک پر عائد پابندی ختم کردی

ٹک ٹاک نے ٹرانسپیرنسی کو مزید بہتر بناتے ہوئے ٹرانسپیرنٹ سینٹر کو ہی وسعت دی ہے اور آن لائن درخواست سینٹر بھی متعارف کرادیا۔

اب کوئی بھی شخص، ادارہ، حکومت، جماعت یا افراد کو گروہ نامناسب اور متنازع مواد کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے ہٹانے کے لیے درخواست دے سکتا ہے اور مطلوبہ درخواست پر انتظامیہ فوری عمل کرنے کو یقینی بنانے کے لیے بھی پرعزم ہے۔

ٹک ٹاک نے ٹرانسپیرنسی کے کو بہتر بنانے کے لیے 2019 میں ٹرانسپیرنسی سینٹر قائم کیا تھا، جس کے تحت ہر سال رپورٹس شائع کی جاتی ہیں، مذکورہ رپورٹس میں نئے اور حیران کن انکشافات بھی سامنے آتے ہیں ۔

اپنی ٹرانسپیرنسی کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے ٹک ٹاک نے سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی تنظیموں اور ماہرین کے لیے فیڈ بیک فارم بھی شامل کیا ہے جب کہ رپورٹس کو اردو، انگریزی، فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، چینی، روسی اور عربی زبانوں سمیت 26 زبانوں میں شائع کیا جائے گا۔

ٹک ٹاک سے متنازع اور نامناسب مواد ہٹوانے کے لیے کوئی بھی شخص اس لنک پر کلک کرکے بھی مواد کو ہٹانے کی درخواست دے سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں