پشاور: معطل ہونے والے سول جج تحقیقات میں ریپ کے الزام سے کلیئر قرار

05 دسمبر 2021
واقعے کی تحقیقات کے لیے ڈی پی او لوئر دیر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
واقعے کی تحقیقات کے لیے ڈی پی او لوئر دیر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

پشاور: مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے ضلع لوئر دیر کے ایک سینئر سول جج کو ریپ کے الزام سے کلیئر قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی سلسلے میں ہوئی ایک پیش رفت میں ڈسٹرکٹ سیشن جج شعیب خان نے ملزم جمشید کنڈی کو ہفتے کے روز ضمانت دے دی۔

لوئر دیر پولیس نے 25 نومبر کو سینئر سول جج کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب ایک خاتون نے ان پر سرکاری رہائش گاہ میں جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا۔

دو صفحات پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس کو جمعہ کو فرانزک سائنس لیبارٹری، پشاور سے ایک رپورٹ موصول ہوئی جس میں 'مادہ منویہ کی موجودگی کی جانچ کے لیے بھیجے گئےنمونے منفی آئے'۔

یہ بھی پڑھیں:خیبر پختونخوا: ریپ کے مقدمے میں گرفتار سینئر سول جج معطل

رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مقدمہ منسوخی کے قابل ہے اور اگر ملزم جمشید کنڈی اس سلسلے میں اپنی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں تو خاتون شکایت کنندہ کے خلاف نیا مقدمہ درج کیا جائے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد واقعے کی تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر لوئر دیر کی سربراہی میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ملزم اور متاثرہ دونوں کے کال ڈیٹیلڈ ریکارڈ (سی ڈی آر) حاصل کیے گئے اور جانچ پڑتال سے ان کے درمیان رابطے ثابت ہوگئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سی ڈی آر کی مزید جانچ پڑتال سے ظاہر ہوا کہ خاتون شکایت گزار نے 9 نومبر سے 25 نومبر 2021 کے درمیان پولیس کے ایمرجنسی نمبر 15 پر مختلف علاقوں میں کم از کم 20 مواقعوں پر رابطہ کیا۔

ان میں سے ان میں سے آٹھ کالز 9 نومبر کو پشاور، 9 کالز 16 نومبر کو مظفر آباد، ایک 20 نومبر کو بہاولپور اور دو 25 نومبر کو تیمرگرہ سے کی گئیں۔

مزید پڑھیں:سیہون: چیمبر میں لڑکی کا 'ریپ' کرنے والا جوڈیشل مجسٹریٹ معطل

رپورٹ میں کہا گیا کہ سی ڈی آر سے بھی ملزم اور شکایت کنندہ کے درمیان بات چیت کی تصدیق ہوئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ خاتون شکایت گزار نے پہلے اپنی شناخت غلط بتائی اور دعویٰ کیا کہ وہ سندھ کے ضلع خیر پور کی رہائشی ہے تاہم تحقیقات میں ثابت ہوا کہ وہ شناخت اور پتا غلط بتا رہی ہے۔

مزید برآں جب نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈ سے ان کے بھائی کا شناختی کارڈ نمبر ملا تو معلوم ہوا کہ خاتون پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی رہائشی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جب جے آئی ٹی نے خاتون کے مجرمانہ ریکارڈ کے لیے پنجاب پولیس سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس کے خلاف صوبے کے مختلف شہروں میں درج آٹھ ایف آئی آر شیئر کیں۔

رابطہ کرنے پر لوئر دیر کے ڈی پی او عرفان اللہ خان نے جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات کی تصدیق کی۔

یہ بھی پڑھیں:شادی کے جھانسے پر لاہور پہنچنے والی لڑکی نے ریپ کی تردید کردی، مقدمے سے دستبردار

انہوں نے کہا کہ خاتون شکایت کنندہ کا طویل مجرمانہ ریکارڈ ہے اور اس کے خلاف رحیم یار خان، لودھراں، ملتان اور لاہور میں کم از کم آٹھ مقدمات درج ہیں۔

ڈی پی او نے کہا کہ رواں سال ستمبر میں ضلع کرک میں بھی خاتون نے 'ایسا ہی کچھ' کیا تھا لیکن معاملہ عدالت سے باہر طے پا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ خاتون شکایت کنندہ کو سوات کے دارالامان بھیج دیا گیا تھا تاہم دارلامان کے عملے نے خاتون کے برے رویے کی شکایت کی تھی اور کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہونے کے خدشے کے باعث خاتون کو کہیں اور منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد خاتون کو واپس تیمر گرہ جیل لایا گیا تھا۔

خیال رہے کہ 25 نومبر کو شکایت کنندہ نے لوئر دیر پولیس کو مطلع کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ جج نے سرکاری رہائش گاہ پر اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔

مزید پڑھیں:پشاور ہائی کورٹ: خلاف ضابطہ فرائض پر جوڈیشل افسران برطرف

خاتون نے کہا تھا کہ جج نے تین ماہ قبل اس کی بہن کو نوکری دینے کے لیے 15 لاکھ روپے رشوت مانگی تھی اور رقم نہ ہونے پر اس نے جج کو 15 لاکھ روپے مالیت کے زیورات دے دیے تھے۔

خاتون نے دعویٰ کیا کہ جج نے 25 نومبر کو اس سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اس کی بہن کے لیے نوکری حاصل کرنے سے قاصر ہے اس لیے وہ لوئر دیر آکر اپنا زیور لے جائے۔

خاتون نے الزام لگایا تھا کہ وہ جج کی سرکاری گاڑی میں پشاور سے لوئر دیر ان کی سرکاری رہائش گاہ پر پہنچی، جہاں جج نے کہا کہ وہ زیورات اس صورت میں واپس کریں گے کہ وہ ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے، جس سے انکار پر جج نے اسے ریپ کیا۔

مقدمہ درج ہونے کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے مذکورہ جج کو معطل کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں