سری لنکن مینیجر کو بچانے کی کوشش پر وزیراعظم کا ملک عدنان کو تمغہ شجاعت دینے کا اعلان

05 دسمبر 2021
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پوری قوم کی جانب سے میں ملک عدنان کی بہادری اور اخلاقی جرات کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں— فائل فوٹو: بشکریہ عمران خان فیس بُک پیج
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پوری قوم کی جانب سے میں ملک عدنان کی بہادری اور اخلاقی جرات کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں— فائل فوٹو: بشکریہ عمران خان فیس بُک پیج

وزیر اعظم عمران خان نے سیالکوٹ میں مقتول سری لنکن مینیجر ریانتھا دیاوادنا کی ڈھال بن کر انہیں مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوشش کرنے والے شہری ملک عدنان کو بہادری پر تمغہ شجاعت سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔

سیالکوٹ میں پیش آنے والے دلخراش واقعے میں ملک عدنان اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر سری لنکن شہری کی جان بچانے کی کوشش کرتے رہے۔

مزید پڑھیں: سیالکوٹ: ہجوم کا سری لنکن شہری پر بہیمانہ تشدد، قتل کے بعد آگ لگادی

وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ملک عدنان کی جرات اور بہادری پر انہیں سلام پیش کرتے ہوئے ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں پوری قوم کی جانب سے میں ملک عدنان کی بہادری اور اخلاقی جرات کو سلام پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے سیالکوٹ میں اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے پریانتھا دیاوادنا کو پناہ دینے اور خود کو ڈھال بنا کر انہیں جنونی جتھے سے بچانے کی پوری کوشش کی، ہم انہیں تمغۂ شجاعت سے نوازیں گے۔

واضح رہے ہک سیالکوٹ گارمنٹ فیکٹری عہدیدار ملک عدنان کی جانب سے پریانتھا کمار پر تشدد سے روکنے کی کوشش کی ایک اور وڈیو منظر عام پر آئی تھی۔

ویڈیو میں ملک عدنان کو کہتے سنا جاسکتا ہے کہ پریانتھا غیر مسلم ہے اسے نہیں معلوم کہ پیپر پر کیا لکھا ہے۔

ساتھ ہی فیکٹری عہدیدار نے ورکرز کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ گارنٹی دیتا ہوں کہ پریانتھا کمار کو فیکٹری سے نکال دیں گے اور ایف آئی آر بھی درج کروائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا کے صدر سے سیالکوٹ واقعے پر قوم کے غم وندامت کا اظہار کیا، وزیراعظم

تاہم ملک عدنان کے سمجھانے کے باوجود مشتعل افراد نعرے لگاتے رہے اور ہجوم کے آگے ملک عدنان بے بسی کی تصویر بنا رہا۔

ملزمان گرفتار اور ریمانڈ

پنجاب پولیس نے سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کو تشدد کر کے قتل کرنے کے مقدمے میں مزید 6 افراد کو گرفتار کرلیا جبکہ 13 ملزمان کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ بھی حاصل کرلیا گیا۔

سیالکوٹ کے 13 مرکزی ملزمان کو فوجداری عدالت کے جج ظریف احمد کے سامنے پیش کیا گیا، پولیس کی درخواست پر عدالت نے ایک روزہ راہداری ریمانڈ ریمانڈ دے دیا۔

جن ملزمان پر 3 دسمبر کو سری لنکن شہری کو بہیمانہ تشدد کر کے قتل کرنے میں مرکزی کردار ادا کرنے کے الزامات ہیں، ان میں فرحان ادریس، صبوربٹ، طلحہ، عبدالرحمٰن، عمران، تیمور، شعیب، راحیل، عثمان، شاہزیب احمد، ناصر،احتشام اور جنید شامل ہیں۔

اگوکی پولیس تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ارمغان مقط کی درخواست پر راجکو انڈسٹریز کے 900 ورکرز کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 297، 201، 427، 431، 157، 149 اور انسداد دہشت گردی قانون کے 7 اور 11 ڈبلیو ڈبلیو کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ سیالکوٹ: مزید 6 مرکزی ملزمان زیر حراست، دیگر کی تلاش میں چھاپے جاری

درخواست گزار نے کہا کہ مظاہرین نے ان کی موجودگی میں پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت ہوگئی اور اس کے بعد ان کی لاش کو آگ لگادی۔

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کی کمی کے باعث وہ مشتعل ہجوم کے آگے بے بس تھا۔

ادھر پنجاب پولیس کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان کے مطابق گزشتہ 2 روز کے دوران پولیس 124 افراد کو گرفتار کرچکی ہے جس میں 19 مرکزی ملزمان بھی شامل ہیں جنہوں نے اس اقعے میں بہیمانہ کردار ادا کیا۔

دلخراش واقعہ

واضح رہے کہ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔

سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سیالکوٹ واقعہ: ساتھی کی سری لنکن منیجر کو بچانے کی کوشش کی ویڈیو سامنے آگئی

ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کہ فیکٹری کے کچھ کارکن متوفی جنرل مینیجر جو کہ ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کو نظم و ضبط کے نفاذ میں سختی کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔

جمعہ کی صبح معمول کے معائنے کے بعد پریانتھا کمارا نے ناقص کام پر سینیٹری عملہ کی سرزنش کی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چونکہ فیکٹری میںرنگ ہونے والا تھا اس لیے مینیجر نے دیواروں سے پوسٹر ہٹانا شروع کر دیےان میں سے ایک پوسٹر میں کسی مذہبی جلسے میں شرکت کی دعوت تھی جس پر ورکرز نے اعتراض کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پریانتھا کمارا نے معافی کی پیشکش کی، لیکن ایک سپروائزر نے کارکنوں کو اکسایا، جنہوں نے ان پر حملہ کردیا۔

مزید پڑھیں: سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل، پاکستان کیلئے شرم ناک دن ہے، وزیراعظم

جس کے بعد پریانتھا کمارا چھت کی طرف بھاگے اور سولر پینل کے نیچے چھپنے کی کوشش کی لیکن مشتعل کارکنوں نے انہیں پکڑ لیا اور وہیں مار ڈالا۔

مظاہرین نے پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد روڈ پر واقع فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت ہوگئی اور اس کے بعد ہجوم نے ان کی لاش کو آگ لگادی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں