پارلیمنٹ، عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ

07 دسمبر 2021
عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ نے ملازمین کی برطرفی کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست پر سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ نے ملازمین کی برطرفی کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست پر سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ مقننہ کسی عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی لیکن اس فیصلے کے اثرات دور کرسکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 17 ہزار ملازمین کی برطرفی کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواستوں کی سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کسی فیصلے میں کہہ دے کہ کسی فرد کو درست طور پر برطرف کیا گیا ہے تو حکومت اسے واپس ملازمت پر بحال نہیں کرسکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ اس 5 رکنی بینچ کا حصہ ہیں جو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: 16 ہزار ملازمین کی برطرفی، حکم امتناع پربحالی کی درخواست مسترد

جج نے ریمارکس دیے کہ ملازمین کی برطرفی کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کے لیے عدالت سے دوسری مرتبہ رجوع نہیں کیا جاسکتا۔

عدالت نے کہا کہ ’ہم یہ اسکیم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پارلیمان نے سرکاری ملازمین کی بحالی کا قانون کیوں بنایا جبکہ برطرف ملازمین کا ہر کیس مختلف فورمز پر زیر بحث آچکا اور ان پر فیصلے ہوچکے ہیں۔

خیال رہے کہ 17 اگست کو اپنی ریٹائرمنٹ کے روز سابق جسٹس مشیر عالم نے پیپلز پارٹی کے دور کے ’برطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010‘ (سیرا) کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا جس کے تحت بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں اور ترقی ملی تھی۔

انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے افسران کی نمائندگی کرتے ہوئے بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا تو متعدد برطرف ملازمین کو بحال کرنا پڑے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے کچھ آئی بی افسران کی برطرفی کے فیصلے پر نظرِ ثانی کا بھی ذکر کیا تاہم جسٹس قاضی امین نے انہیں یاددہانی کروائی کے فیصلے پر کبھی نظرِ ثانی نہیں کی گئی البتہ کچھ ریمارکس حذف کیے گئے تھے لیکن برطرفی کالعدم قرار نہیں دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ملازمین کی برطرفی: ’عدالتی فیصلے تک برطرف ملازمین کو سرکاری رہائش گاہوں سے نہ نکالا جائے‘

اعتزاز احسن نے مؤقف اختیار کیا کہ برطرفی کے احکامات جاری کرنے والی نگران حکومت کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا، انہوں نے کہا کہ 17 اگست کا فیصلہ ’بالکل غلط فہمی‘ کی بنیاد پر تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفساع کیا کہ ’1993 سے 1996 کے درمیان بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین میں کیا خاص بات تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ اس قانون کی کیا حیثیت ہوگی جو اسلام آباد میں خدمات انجام دینے والے سرکاری ملازمین کے لیے 5 پیشگی تنخواہوں میں اضافوں کی منظوری دیتا ہے لیکن باقی سب کو اس فائدے سے محروم رکھتا ہے۔

جسٹس قاضی امین نے اعتزاز احسن کو یاد دلایا کہ ان ملازمین کے تقرر کے وقت وہ وزیر داخلہ تھے انٹیلی جنس بیورو نے بھرتی کے سخت عمل کی پیروی کرتا ہے، لیکن زیر غور کیس میں بظاہر اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین (بحالی ) آرڈیننس ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دے دیا

اعتزاز احسن نے اس بات کی تردید کہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ آئی بی میں تقرریاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر تھیں۔

ایک درخواست میں اسکول اساتذہ کی پیروی کرنے والے افتخار گیلانی نے عدالت عظمیٰ کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیا جس میں عدالت نے قرار دیا کہ وہ پارلیمنٹ کے بنائے قانون کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

تاہم جسٹس بندیال نے کہا کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں عدلیہ کے پاس مداخلت کرنے کی ذمہ داری ہے۔

افتخار گیلانی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر کوئی قانون بدنیتی سے بھی نافذ کیا گیا ہو تو بھی سپریم کورٹ کے پاس مقننہ کی حکمت یا مقصد پر سوال اٹھانے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں