اے ڈی آر کے ذریعے اراضی کا 45 سال پرانا تنازع حل

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2021
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ فیصلے کا نفاذ ایک یا دو روز میں کردیا جائے گا — فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ فیصلے کا نفاذ ایک یا دو روز میں کردیا جائے گا — فائل فوٹو: اے ایف پی

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع اورکزئی کی انتظامیہ نے متبادل تنازعاتی حل (اے ڈی آر) کے ذریعے 45 سال پرانا زمین کا تنازع حل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اخیل اور ڈارا ڈار مامزئی (ڈی ڈی ایم) قبائل کے درمیان اپر اورکزئی کے علاقے گھیلجو بازار کے قریب ملا پاٹے میں واقع زمین پر تنازع تھا اور دونوں قبائل کا دعویٰ تھا کہ زمین ان کی ملکیت ہے۔

دونوں فریقین کے درمیان 1976سے تنازع شروع ہوا تھا جس کے نتیجے میں رواں سال جنوری میں ہونے والے تصادم میں 4 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اورکزئی کے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر آصف رحیم نے ڈان کو بتایا کہ 1976 میں اس وقت کے سیاسی نمائندوں نے قبائل کے عمائدین سے مذاکرات کیے تھے، تاہم سیاسی انتظامیہ نے متتازع زمین کو اپنے قبضے میں لے کر دونوں فریقین کو اس کے استعمال سے روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: کندھ کوٹ: قبائلی تنازع میں 9 افراد قتل

انہوں نے کہا کہ بعد ازاں افغان جنگ کے دوران مذکورہ زمین پر دونوں قبائل کی مشاورت کے بعد افغان مہاجر کیمپ قائم کردیا گیا تھا، یہ زمین 2007 سے اب تک افغان مہاجرین کے زیر استعمال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2007 سے 2017 تک اورکزئی کے علاقے میں عسکریت پسندی کے دوران افغان مہاجرین کے ساتھ باشندے نشیبی علاقوں میں ہجرت کر گئے تھے، 2016 میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد (آئی ڈی پیز) واپس آئے تھے اس دوران سب ڈویژن نے ان کے تباہ شدہ گھر دوبارہ بنانے شروع کر دیے تھے۔

ڈاکٹر آصف رحیم کا کہنا تھا کہ دسمبر 2020 میں اخیل قبیلے نے متنازع زمین پر کوٹیجز بنانا شروع کردیے تھے، تاہم ڈی ڈی ایم قبیلے نے اخیل قبیلے کے ساتھ جرگہ کیا، جرگے میں قبیلے کے دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی شرکت کی اور دونوں نے متنازع زمین کی ملکیت کا دعویٰ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’رواں سال جنوری میں مشتی، شیخان، رابعہ خیل اور ڈی ڈی ایم قبائل نے ملا پاٹے میں جرگے کا انعقاد کیا اور زیر تعمیر کاٹیجز مسمار کرنے کا مطالبہ کیا، جرگے کی کارروائی کے دوران پولیس بھی موجود رہی۔

یہ بھی پڑھیں: دیر بالا: زمین کے تنازع پر جرگے کے دوران فائرنگ، 8 افراد ہلاک

دریں اثنا ڈی ڈی ایم کے نوجوانوں نے کاٹیجز پر حملہ کیا اور انہیں توڑ دیا۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ تصادم کے دوران اخیل قبیلے کا ایک جبکہ حریف قبیلے کے 3 افراد ہلاک ہوئے۔

ڈی ڈی ایم قبیلے کے اراکین نے کارروائی نہ کرنے پر حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حریف اخیل قبیلے کے بزرگوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے تینوں لاشوں کے ہمراہ بابر میلا میں واقع ضلعی انتظامیہ کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے دھرنا دے دیا تھا تاہم کامیاب مذاکرات کے بعد میتوں کی تدفین کردی گئی اور سڑک ٹریفک کے لیے کھول دی گئی۔

آصف رحیم کا کہنا تھا کہ اے ڈی آر (ثالثین) ایکٹ اور قواعد 2020 کی توسیع کے بعد نئے ضم شدہ اضلاع کے تنازع کو ثالثین کمیٹی (اے ڈی آر) کے حوالے کردیا گیا تھا تاکہ دونوں فریقین کی رضا مندی کے بعد خوشگوار حل نکالا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ثالثین کمیٹی کو مطلع کیا ہے، یہ کمیٹی دونوں فریقین کے آٹھ اراکین پر مشتمل ہے، کمیٹی نے جرگہ شروع کیا اور اس کے مختلف سیشنز ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: جرگہ اور پنچایت کا نظام غیر آئینی اور عالمی وعدوں کے خلاف قرار

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ’بالاخر 7 دسمبر کو ثالثین کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلے کا اعلان کیا اور خوشگوار قرارداد سامنے آئی جس کے مطابق اخیل قبیلے نے زمین پر اپنی ملکیت کی گواہی دینے والے شاہد پیش کیے اور دونوں فریقین نے فیصلے کو قبول کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ فیصلے کا نفاذ ایک یا دو روز میں کردیا جائے گا۔

اے ڈی آر کا مقصد بغیر کسی رسمی قانونی چارہ جوئی کے سستا اور تیز رفتار انصاف فراہم کرنا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے قبائلی نوجوانوں کو متحرک کرنا شروع کردیا

ادھر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے قبائلی نوجوانوں کو متحرک کرنا شروع کردیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ شیر شاہ آفریدی جوان، تعلیم یافتہ اور معروف سماجی رہنما ہیں، خیبر کی تحصیل میں ان کا انتخاب قبائلی اضلاع کی ترقی کی مہم کو تقویت بخشے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں