سپریم کورٹ: جرگہ اور پنچایت کا نظام غیر آئینی اور عالمی وعدوں کے خلاف قرار

اپ ڈیٹ 17 جنوری 2019
قبائلی علاقوں اور صوبوں کے کچھ دیہی علاقوں میں جرگہ کا موجود ہے—فائل فوٹو
قبائلی علاقوں اور صوبوں کے کچھ دیہی علاقوں میں جرگہ کا موجود ہے—فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جرگہ اور پنجایت کے نظام کو آئین اور پاکستان کی بین الاقوامی یقین دہانیوں کے خلاف قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ جرگہ اور پنجایت کے نظام انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (یو ڈی ایچ آر)، سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے تمام فورم پر خاتمے پر موجود کنونشن (سی ای ڈی اے ڈبلیو) کے تحت پاکستان کی بین الاقوامی وعدوں کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ یہ یقین دہانی پاکستان پر ایک ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر کسی کی عدالت یا ٹریبیونل تک رسائی ہے اور قانون کے سامنے ہر شخص مساوی ہے۔

مزید پڑھیں: جرگہ سسٹم بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ فیصلہ خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن (این سی ایس ڈبلیو) سمیت حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر دیا گیا۔

اس کیس میں اٹھائے گئے مسئلے کی اصل حقیقت یہ تھی کہ آج کے دور میں قبائلی علاقوں خاص طور پر خیبرپختونخوا کے شمالی اور پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے کچھ دیہی علاقوں میں ’عمائدین کے کونسل‘ یا ’کنگارو کورٹس‘ کی شکل میں غیر رسمی لیکن متوازی قانونی نظام موجود ہے۔

این سی ایس ڈبلیو نے اپنی درخواست کے ذریعے سپریم کورٹ سے ملک میں موجود جرگے یا پنچایتی نظام کی قانونی حیثیت پر فیصلے کی درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ سول، مجرمانہ اور دیگر تنازع میں فیصلہ دینے، سزاؤں پر عمل کروانے اور دیگر معاملات میں یہ اداروں کے اختیارات کو چیلنج کر رہے ہیں۔

اس درخواست کے جواب میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ملک میں چلنے والے جرگہ یا پنجایت کے نظام کو آئین کے آرٹیکل 4، 8، 10 اے، 25 اور 175 (3) کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ متوازی عدالتی نظام کا یہ عمل آئین یا کسی دوسرے قانون میں نہیں آتا کیونکہ اس نظام نے سول یا فوجداری معاملات پر فیصلہ کرنے کی کوشش کی۔

تاہم عدالتی فیصلے میں یہ کہا گیا کہ ثالثی، مصالحت، یا سول تنازع میں شامل فریقوں کے درمیان رضامندی سے مذاکرات یا مفاہمت کے لیے جرگہ یا پنجایت قانونی دائرے میں رہتے ہوئے کام کرسکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کسی فرد یا افراد کے گروپ کی جانب سے جاری حکم، فیصلے یا ہدایت کو آئین کی روح کے خلاف اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جرگہ یا پنجایت یا کسی دوسرے نام پر کوئی شخص یا اشخاص بغیر کسی قانونی اختیار کے سول یا فوجداری عدالت کے دائرہ کار کو اختیار نہیں کرسکتے۔

یہ بھی پڑھیں: دیامر اسکول نذرآتش کا معاملہ: ’شدت پسندوں سے مذاکرات کیلئے جرگہ تشکیل‘

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کسی فیصلے پر ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر کارروائی کے پابند ہیں جبکہ ایسے آئین سے متصادم جرگے یا پنچایت کی معاونت کرنے والے بھی جرم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔

عدالتی فیصلے میں 25 ویں آئینی ترمیم پر بھی روشنی ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس ترمیم کے بعد فاٹا، خیبرپختونخوا کا حصہ ہے اور صوبے کے عدالتی نظام کی فاٹا تک توسیع ہے۔

فیصلے میں خیبرپختونخوا حکومت کو فاٹا میں عدالتی نظام بہتر بنانے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ وفاق اور صوبے جرگے یا پنچایت کی غیر قانونی حیثیت سے متعلق عوام میں شعور بیدار کریں اور جرگے یا پنجایت کے فیصلوں کو غیر قانونی تصور کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں