بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے 20 طلبہ کو سزائے موت

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2021
سزائے موت پانے والے تمام افراد کی عمریں 20 سے 22 سال کے درمیان ہیں — فائل فوٹو
سزائے موت پانے والے تمام افراد کی عمریں 20 سے 22 سال کے درمیان ہیں — فائل فوٹو

بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے بدھ کو یونیورسٹی کے 20 طالب علموں کو 2019 میں سوشل میڈیا پرحکومت پر تنقید کرنے والے نوجوان کے وحشیانہ قتل کے الزام میں سزائے موت سنادی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق 21 سالہ ابرار فہد کی مسخ شدہ لاش ان کی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اس وقت ملی جب اس نے ایک فیس بک پوسٹ لکھی جس میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کو بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

طالب علم ابرار فہد کو حکمران جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کے 25 اراکین نے 6 گھنٹے تک کرکٹ کے بلے اور دیگر اشیا سے مارا۔

فہد کے والد برکت اللہ نے فیصلے کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں فیصلے سے خوش ہوں، مجھے امید ہے کہ سزائیں جلد مل جائیں گی۔‘

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: وزیر اعظم کے قتل کا منصوبہ بنانے والے 14 شدت پسندوں کو سزائے موت

پراسیکیوٹر عبداللہ ابو نے بتایا کہ باقی 5 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

سزائے موت پانے والے تمام افراد کی عمریں 20 سے 22 سال کے درمیان ہیں اور انہوں نے فہد کے ساتھ بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کی تھی۔

ملزمان میں سے 3 ابھی تک مفرور ہیں جبکہ باقی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

مدعا علیہان کے وکیل نے کہا کہ سزا کے خلاف اپیل کی جائے گی۔

فہد نے اپنی موت سے چند گھنٹے قبل فیس بک پر ایک پوسٹ ڈالی تھی جو وائرل ہوگئی تھی۔

پوسٹ میں فہد نے حکومت کو ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے تحت بھارت کو ایک دریا سے پانی لینے کی اجازت دی گئی جو دونوں ممالک کی سرحد پر واقع ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: امریکی بلاگر کے قتل کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت

لیک ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، میں فہد کو بی سی ایل کے کچھ کارکنوں کے ساتھ ایک ہاسٹلری میں دیکھا گیا تھا۔

تقریباً 6 گھنٹے بعد طلبہ نے اس کی لاش کو باہر نکال کر زمین پر لٹا دیا۔

بی سی ایل حالیہ کچھ برسوں میں بدنام ہوئی ہے جب اس کے کچھ ارکان پر قتل، تشدد اور بھتہ خوری کے الزامات لگائے گئے۔

2018 میں اس کے ارکان نے مبینہ طور پر ایک بڑے حکومت مخالف طلبہ کے احتجاج کو دبانے کے لیے تشدد کا استعمال کیا، یہ مظاہرے تیز رفتار بس کی زد میں آکر ایک طالب علم کی ہلاکت کے بعد روڈ سیفٹی اقدامات نہ ہونے کےخلاف شروع ہوئے تھے۔

مظاہرین نے حملہ آوروں کو سخت سے سخت سزا دینے اور بی سی ایل پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: حکومت ’ریپ‘ ملزمان کو سزائے موت کا قانون بنانے کیلئے تیار

حسینہ واجد نے حملوں کے فوراً بعد اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ قاتلوں کو "سب سے بڑی سزا" ملے گی۔

بنگلہ دیش میں سزائے موت عام ہے جہاں سینکڑوں قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں، سزائے موت پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہیں، سزائے موت کا قانون برطانوی نوآبادیاتی دور کی میراث ہے۔

اگست میں، ایک عدالت نے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے دو کارکنوں کے وحشیانہ قتل کے الزام میں 6 مذہبی انتہا پسندوں کو موت کی سزا سنائی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں