امریکی بل میں پاکستان سے متعلق منفی حوالہ جات خارج

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2021
ترمیمی ویژن سے ’پاکستان‘ کو نکال کر متن تبدیل کرتے ہوئے’افغانستان کے قریب کوئی بھی ملک‘ لکھ دیا گیا— فائل فوٹو: رائٹرز
ترمیمی ویژن سے ’پاکستان‘ کو نکال کر متن تبدیل کرتے ہوئے’افغانستان کے قریب کوئی بھی ملک‘ لکھ دیا گیا— فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی ایوان نمائندگان نے کابل پر طالبان کے قبضے پر پاکستان کے کردار سے متعلق تمام منفی حوالہ جات خارج کردیے، مذکوہ حوالوں میں ملک کو سقوطِ کابل کا موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے ساتھ منفی پیشرفت بھی دیکھی گئی ہے جو گزشتہ ہفتے سری لنکن فیکٹری مینیجر کی المناک ہلاکت پر سامنے آئی ہے، اس واقعے سے ملک میں سلامتی کی صورتحال پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد امریکی پاکستان کے دورے کے حوالے سے زیادہ محتاط ہوگئے ہیں۔

امریکا کے قومی سلامتی ایکٹ 2022 کے متن میں امریکا کے سیکریٹریز برائے دفاع و ریاست کو کانگریس کی کمیٹی کے سامنے تصدیق کرنی تھی کہ پاکستان کو ’حمایت‘ فراہم کرنا امریکا کے قومی سلامتی کے مفاد میں ضروری ہے۔

تاہم ترمیمی ورژن سے لفظ ’پاکستان‘ کو نکال کر متن تبدیل کرتے ہوئے ’افغانستان کے قریب کوئی بھی ملک‘ لکھ دیا گیا، ایک اور حوالہ (ریفرنس) جس کے حقیقی متن میں طالبان کے کابل پر قبضے میں پاکستان کے کردار کی وضاحت طلب کی گئی تھی، اسے حذف کردیا گیا اور اس ریفرنس میں مزید کچھ شامل نہیں کیا تھا۔

مزید پڑھیں : خصوصی امریکی وفد کا دورہ پاکستان

تاہم، ایکٹ میں امریکا کے انخلا کی وجوہات اور اثرات کی تحقیقات کی شرط برقرار رکھتے ہوئے تجویز دی گئی کہ اس عمل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو افغانستان کےقریب اور دور دراز پڑوسیوں کے کردار کا جائزہ لے۔

امریکی مفادات کےلیے پاکستان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کا ایک اشارہ گزشتہ ہفتے سامنا آیا جب جوبائیڈن انتظامیہ نے اسلام آباد کو پہلے جمہوری اجلاس میں مدعو کیا جو 9 سے 10 دسمبر تک جاری رہا۔

دعوت پر تبصرہ کرتے ہوئے واشنگٹن کے بااثر تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے پاکستان کو مدعو کرنے اوربنگلہ دیش کو دعوت نہ دینے پر دو وجوہات کا حوالہ دیا، ایک یہ کہ ’امریکی فہرست میں کس کا اسکور قدرے بہتر ہے‘۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے وضاحت دی کہ ’2015 سے پاکستان کے جمہوری اسکور میں قدرے بہتری دیکھی جارہی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں جمہوری نظام خرابی کا شکار ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان سے قبل دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ

انہوں نے دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکا خطےمیں جمہوری حریف کے ساتھ بھارت کی شمولیت متوازن کرنا چاہتا ہے‘۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن نے رپورٹ میں کہا کہ امریکا کی درجہ بندی میں بھارت درمیانے درجے پر موجود ہے، سال 2020 سے 2021 تک حکومتی اختیارات میں رکاوٹ، بدعنوانی اور بنیادی حقوق کی فراہمی میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

علاوہ ازیں، 3 دسمبر کو سری لنکن فیکٹری مینجر پریانتھا کمار کے قتل کے بعد پاکستان کے تشخص پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

واقعے کے بعد امریکی سینیٹ وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

وفد میں سینیٹر انگس کنک، ریچرڈ بر، جوہن کورنین اور بینجامن سس شامل تھے، انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغان سیاسی وفد کی پاکستان آمد، افغانستان میں امن و استحکام پر تبادلہ خیال

تاہم ان کی آمد اور اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات کی خبر وفد کی روانگی کے بعد جاری کی گئی، بظاہر یہ امریکا کی ہدایات پر کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 9/11 کے بعد امریکا اور مغربی اقوام پاکستان کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں، لیکن آہستہ آہستہ امریکا کی پابندیاں کم ہوتی جارہی ہیں۔

امریکی عہدیداران نے سرکاری بریفنگز کے دوران مستقبل میں پاکستان کے دورے کی باتیں شروع کردی تھیں، البتہ ان دوروں کے شیڈول کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سانحہ سیالکوٹ کے بعد کیے گئے امریکی دورے کے بعد ہی وہ دورہ پاکستان سے متعلق اپنے پرانے انداز گفتگو کی جانب لوٹ آئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں