وفاق کا صوبائی ترقیاتی منصوبوں کیلئے رقم کی فراہمی روکنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2021
وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ صوبے تمام منقولہ محکموں کی مکمل مالی ذمہ داری قبول کریں —فائل فوٹو: اے پی پی
وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ صوبے تمام منقولہ محکموں کی مکمل مالی ذمہ داری قبول کریں —فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: وسائل کی بڑھتی ہوئی کمی کے باعث وفاق نے اصولی طور پر صوبائی ترقیاتی منصوبوں کی فنانسنگ روکنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ 3 کھرب 20 ارب روپے سے زائد کا مالیاتی بوجھ وفاقی اکائیوں کو منتقل کیا جائے۔

وفاق کی جانب سے خاص طور پر مرکز سے صوبوں کو منتقل ہونے والے محکموں سے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ نئے نیشنل ڈیولپمنٹ فریم ورک (این ڈی ایف) کا حصہ ہے جس کے تحت وفاقی حکومت اپنی سرمایہ کاری کی ترجیحات کو وفاقی ذمہ داریوں کے شعبوں تک محدود رکھنا چاہتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ صوبے تمام منقولہ محکموں کی مکمل مالی ذمہ داری قبول کریں۔

اس معاملے پر پیر کو سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کے ایک خصوصی اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا، جس کی صدارت ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن محمد جہانزیب خان نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: سال 22-2021: ترقیاتی منصوبوں پر 2.1 کھرب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے، اسد عمر

منصوبہ بندی کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم اور کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے بعد 16 وفاقی وزارتیں ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ متعلقہ صوبوں کو سونپ دی گئی تھیں۔

سال 2017 تک صحت اور آبادی کے بنیادی منصوبوں کے سوا وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے ذریعے صوبائی نوعیت کے منصوبوں کی فنانسنگ کی حوصلہ شکنی کی گئی۔

تاہم اس حقیقت کے باوجود ساتویں مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کے تحت قابل تقسیم رقم میں وفاق کا حصہ 57 فیصد سے کم ہو کر 45 رہ گیا، وفاقی بجٹ پر مالی بوجھ بڑھتا رہا۔

صوبائی منصوبے اس کے بعد سے وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل ہو گئے ہیں، جس سے قومی اہمیت کے منصوبوں کے لیے ایک محدود گنجائش رہ گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں میں سست پیشرفت پر وفاق کا اظہار ناراضی

عہدیدار نے بتایا کہ پی ایس ڈی پی برائے سال 22-2021 میں تقریباً 331 صوبائی نوعیت کے منصوبے ہیں جن کی مالیت پی ایس ڈی کے ایک ہزار 190 منصوبوں میں سے 11 کھرب 51 ارب روپے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان منصوبوں پر وفاق 3 کھرب 30 ارب روپے مختص کرنے کے ساتھ 3 کھرب 45 ارب روپے پہلے ہی خرچ کرچکا ہے اور ان منصوبوں کے لیے صوبوں کو خود پیسہ فراہم کرنا چاہیے۔

اس سلسلے میں جاری ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کے اجلاس کے دوران پالیسی گائیڈ لائنز کا جائزہ لیتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پلاننگ کمیشن ایک این ڈی ایم تیار کر رہا ہے جو سرمایہ کاری کے لیے وفاقی حکومت کی ترجیحات کی رہنمائی کرے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ معاملات ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور وفاقی اور صوبائی سطح پر کردار اور ذمہ داریوں کی تشکیل کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز کے اجرا میں خاطر خواہ اضافہ

بیان میں بتایا گیا کہ این ڈی ایف کو قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) میں لے جانے سے پہلے صوبوں کے سامنے بھی پیش کیا جائے گا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ صوبائی بوجھ کی وجہ سے قومی اہمیت کے وفاق کے بڑے منصوبوں کو لاگت میں اضافے اور تاخیر کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے۔

مزید کہا گیا کہ این ای سی نے اس سال کے بجٹ کے وقت پہلے ہی اصولی طور پر فیصلہ کر لیا تھا کہ ایس ڈی جیز کے تحت سماجی شعبے کے منصوبوں کے علاوہ صوبائی منصوبوں کی مالی معاونت کی فراہمی مرکز کے لیے ناممکن ہوتی جا رہی ہے۔

جون میں این ای سی کی جانب سے منظور شدہ موجودہ پالیسی کے تحت صوبے زمین کے حصول، آباد کاری، صوبائی ٹیکس اور پراجیکٹ مانیٹرنگ یونٹس کی لاگت برداشت اور ان کے پائیدار آپریشن اور دیکھ بھال کو یقینی بنائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں