توانائی کی قلت، بلند قیمتوں کے باعث قائمہ کمیٹی حکومت پر برہم

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2021
گیس کی فراہمی میں کمی اب بجلی کے شعبے کو بھی متاثر کر رہی ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
گیس کی فراہمی میں کمی اب بجلی کے شعبے کو بھی متاثر کر رہی ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: گیس کے شدید بحران پر پارلیمنٹیرینز کی تنقید کے دوران وزارت توانائی نے تسلیم کیا کہ 8 ایل این جی کارگوز کی درآمد کے لیے ٹینڈرز پر ایک بھی بولی نہ لگنا، صنعتوں کی جانب سے فراہمی میں کمی اور قیمتوں کے تعین کے چیلنجز پر حاصل کردہ حکم امتناع گیس کی کمی کی اہم وجوہات ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جنید اکبر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس کے دوران ملک بھر میں گیس کی قلت اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر پیٹرولیم ڈویژن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

گیس کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ گیس کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اکتوبر میں ایل این جی کے 8 کارگوز کے لیے ٹینڈرز طلب کیے تھے تاکہ موسم سرما کی زیادہ طلب کو پورا کیا جا سکے، لیکن کوئی بولی لگانے والا نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیں: خدشہ ہے گیس کی قلت برآمدات کی نمو کو سست کردے گی، عبدالرزاق داؤد

انہوں نے کہا کہ ملک میں گیس ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہے ورنہ کم مدت میں پہلے سے درآمد کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔

پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ انہوں نے زیر زمین گیس ذخیرہ کرنے کے لیے ایک تکنیکی مطالعہ کیا ہے تاکہ اس مسئلے سے مستقل طور پر نمٹا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ گیس کی قیمتوں کا تعین بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ درآمدی گیس کے تعین کا کوئی قانون نہیں ہے اور اس معاملے سے ایڈہاک میکانزم کے تحت نمٹا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے 58 فیصد صارفین کا تعلق گھریلو شعبے سے ہے اور درآمد شدہ ایل این جی کے لیے گیس باسکٹ بنانے کے لیے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ سی این جی، سیمنٹ اور صنعتی شعبے کے کیپٹو پاور پلانٹس پر گیس کی کٹوتی لاگو کی گئی ہے اور فراہمی میں کمی اب بجلی کے شعبے کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ملک میں قدرتی گیس کی پیداوار میں کمی

کراچی میں گیس کی قلت سے متعلق ایک سوال پر کمیٹی کو سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کے نمائندوں کی جانب سے بتایا گیا کہ کمپنی کو دسمبر میں تقریباً 100 ملین مکعب فٹ یومیہ گیس کی کمی کا سامنا رہا جو جنوری میں 280 ایم ایم سی ایف ڈی تک پہنچ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ایس جی سی ایل وفاقی حکومت کے منظور کردہ گیس لوڈ مینجمنٹ پلان پر عمل کر رہی تھی۔

تاہم کراچی کی صنعتوں نے لوڈ مینجمنٹ کے خلاف حکم امتناع حاصل کر لیا تھا، جس سے کمپنی کو گھریلو صارفین کو گیس کی مکمل فراہمی یقینی بنانے سے روک دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں شدید سرد موسم کی وجہ سے طلب میں اضافے کے باعث بھی کراچی میں زیادہ قلت کا سامنا ہے۔

کمیٹی کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں جواب دیتے ہوئے پیٹرولیم ڈویژن حکام نے کہا کہ حکومت بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے قیمتیں بڑھانے پر مجبور تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا صنعتوں کو سبسڈائزڈ گیس کی فراہمی ختم کرنے کا ارادہ

جس پر کمیٹی اراکین نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا لیکن کمی صرف مونگ پھلی کے دانے جتنی کی گئی۔

کمیٹی نے اوگرا کے چیئرمین مسرور خان سے استفسار کیا کہ کیا ان پر یا اوگرا حکام پر ان کے سرکاری کاموں کے حوالے سے کوئی سیاسی دباؤ تھا جس پر انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ کوئی دباؤ نہیں اور اوگرا کے اراکین اور عملہ متعلقہ قواعد و ضوابط کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

بعد ازاں پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل مکمل کرنے کے لیے مزید وقت مانگنے پر کمیٹی نے حکومتی بل ’دی پیٹرولیم (ترمیمی) بل 2021‘ کو مؤخر کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں