اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈیفنس کمپلیکس کے اطراف میں دیوار کی تعمیر سے روک دیا

اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2021
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ دیوار ڈیفنس کمپلیکس کی تعمیر کے لیے الاٹ کردہ زمین کے باہر بنائی گئی — فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ دیوار ڈیفنس کمپلیکس کی تعمیر کے لیے الاٹ کردہ زمین کے باہر بنائی گئی — فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈیفنس کمپلیکس المعروف نیو جنرل ہیڈکوارٹرز کے اطراف میں دیوار کی تعمیر سے روک دیا اور حکم دیا کہ سرکاری زمین پر کسی غیر قانونی سرگرمی اور تعمیرات کے خلاف کارروائی ہوگی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ گاؤں کے رہائشیوں کی دائرہ کردہ درخواست کی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کو حکم دیا کہ ڈیفنس کمپلیکس کی منظورہ شدہ پلان کے مطابق تعمیر یقینی بنائی جائے۔

درخواست گزاروں کا تعلق بیری میرا گاؤں سے ہے جو مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے نوٹیفائیڈ علاقے میں آتا ہے، جنہوں نے سیکٹر ای-10 میں ڈیفنس کمپلیکس کے اطراف میں اراضی پر کوارٹر ماسٹر جنرل کے مبینہ غیر قانونی قبضے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے سی ڈی اے کو جھگیوں کے خلاف آپریشن سے روک دیا

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 1960 کے تحت سیکٹر ای-10 میں ڈیفنس کمپلیکس کے قیام کے لیے مخصوص علاقہ الاٹ کیا تھا۔

یہ دکھانے کے لیے کوارٹر ماسٹر جنرل نے غیر قانونی طور پر دیوار کی تعمیر کر کے نیشنل پارک کے علاقے پر تجاوزات کیں، درخواست گزاروں نے پٹیشن کے ساتھ تصاویر بھی منسلک کی تھیں۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ دیوار ڈیفنس کمپلیکس کی تعمیر کے لیے الاٹ کردہ زمین کے باہر بنائی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اسی طرح کی پٹیشنز پر سپریم کورٹ نے 25 اکتوبر 2013 اور 16، 18، 19 مارچ 2015 کو دیے گئے احکامات میں واضح طور پر کہا تھا کہ نیشنل پارک کے نوٹیفائیڈ علاقوں کے اندر کسی غیر قانونی سرگرمی اور تعمیرات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا سیکٹر 14، 15 میں پلاٹس کی قرعہ اندازی پر حکم امتناع

عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ ’بادی النظر میں عدالت کو یہ ظاہر ہوا کہ وزارت دفاع نے کوارٹر ماسٹر جنرل کے ذریعے قوانین کی خلاف ورزی کی، ایسی صورت میں سی ڈی اے اور وفاقی حکومت اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی کی ذمہ دار ہوں گی‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے خبردار کیا کہ دیگر چیزوں کے ساتھ اس طرح کے نتائج پر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے ذمہ دار عہدیداروں کے خلاف 1960 کے آرڈیننس کی دفعہ 46 کے تحت فوجداری مقدمہ چلانے اور تادیبی کارروائی ہوسکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نوٹ کیا کہ درخواست میں اٹھائے گئے سوالات عوامی اہمیت کے حامل ہیں اور اسے باقاعدہ سماعت کے لیے قبول کیا اور کوارٹر ماسٹر جنرل، وزارت دفاع اور سی ڈی او کو نوٹسز جاری کردیے۔

ساتھ ہی عدالت نے وزارت دفاع کے سیکریٹری اور پاک فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل کو ہدایت کی کہ سیکٹر ای 10 میں 'ڈیفنس کمپلیکس' کے قیام کے لیے اتھارٹی کی جانب سے الاٹ کردہ مخصوص جگہ سے باہر کسی بھی سرگرمی یا مطلوبہ تعمیرات کرنے سے گریز کریں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: سی ڈی اے، وفاقی ایمپلائیز اور آرمی کے مابین اراضی کا تنازع ختم

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ’وزارت داخلہ کے سیکریٹری، سی ڈی کے چیئرمین اور وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کو فوری طور پر علاقے کا مشترکہ معائنہ کرنا چاہیے اوریقینی بنائیں کہ الاٹ شدہ اراضی کے باہر بالخصوص مارگلہ ہلز نیشنل پارٹ کے مقرر علاقے میں کوارٹر ماسٹر جنرل کی جانب سے کوئی سرگرمی نہ ہو‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کے چیئرمین کو یہ بھی ہدایت کی کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مذکورہ قوانین/ضوابط اور منظور شدہ لے آؤٹ پلان وغیرہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی تعمیر یا سرگرمی کی اجازت نہ دی جائے۔

علاوہ ازیں وزارت داخلہ کے سیکریٹری اور چیئرمین سی ڈی اے کو بیانِ حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی گئی جس میں تصدیق کی گئی ہو کہ مذکورہ بالا نافذ شدہ قوانین/قواعد کے تحت دی گئی منظوریوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی سرگرمی یا تعمیر نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کی جارہی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت دفاع، وزارت داخلہ کے سیکریٹریز اور چیئرمین سی ڈی اے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مذکورہ بالا قوانین/ قواعد کی خلاف ورزی کی صورت میں عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کریں کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے یا مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے محفوظ نوٹیفائیڈ علاقے میں ناجائز تجاوزات کی سہولت فراہم کرنے کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاسکتی۔

تبصرے (0) بند ہیں