روس کے امریکا سے اگلے ماہ سیکیورٹی مذاکرات

28 دسمبر 2021
سرگئی لاروف نے ایک انٹرویو میں اگلے ماہ مذاکرات کی بات کی---فوٹو: اے پی
سرگئی لاروف نے ایک انٹرویو میں اگلے ماہ مذاکرات کی بات کی---فوٹو: اے پی

روس کے سفارت کار اور فوجی عہدیدار اگلے ماہ امریکا کے ساتھ یوکرین سمیت سیکیورٹی کے دیگر مسائل پر مذاکرات کریں گے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے سرکاری ویب سائٹ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ملک کے نئے سال کی تقریبات کے فوری بعد مذاکرات ہوں گے۔

مزید پڑھیں: مغربی ممالک نے جارحانہ رویہ جاری رکھا تو ہمیں بھی اقدامات کرنے ہوں گے، روسی صدر

روس نے یوکرین کی سرحد پر اضافی فوج تعینات کردی ہے جس پر امریکا اور مغربی طاقتوں کا دباؤ کا سامنا ہے اور اس اقدام کو یوکرین میں مداخلت کے عزائم سے تعیبر کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب روس ان بیانات کی تردید کررہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکا کی سربراہی میں نیٹو کے سیکیورٹی اتحادی خطے کی صورت حال کو خراب کر رہے ہیں اور یوکرین کے ان کے ساتھ بڑھتے تعلقات روس کے لیے خطرہ ہیں۔

سرگئی لاروف سے قبل ہی روسی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ نیٹو کی تجویز پر 12 جنوری کو مذاکرات شروع کرنے پر سوچ بچار کیا جارہا ہے۔

کریملن کے ترجمان دیمتری پاسکوف کا کہنا تھا کہ اس سے روس کو سیکیورٹی کی ضمانت پر مذاکرات کا جواز ملے گا اور ہم نیٹو کے ساتھ امریکا سے دوطرفہ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ مذاکرات کے لیے انتظامی معاملات سفارتی چینلز کے ذریعے طے کیے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے، جی۔سیون کا انتباہ

روسی خبرایجنسی کے مطابق روسی فوجی نے دشمن کی فضائی کارروائیوں کا جواب دینے کے لیے مشقیں کی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق روس کے مغربی علاقے میں اس مشق میں ایک ہزار سے زائد فوجیوں نے حصہ لیا، اس سے قبل گزشتہ ہفتے کئی فوجیوں نے مستقل بیسز کی جانب واپسی شروع کردی تھی، جن کو یوکرین کے ساتھ سرحد پر تعینات کیا گیا تھا۔

قبل ازیں برطانیہ اور یورپی یونین سمیت یوکرین کے مغربی اتحادیوں نے روس کو خبردار کیا تھا کہ یوکرین پر کسی قسم کی جارحیت کی صورت میں معاشی پابندیوں سمیت دیگر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یاد رہے کہ روس نے 2014 میں یوکرین کے علاقے کریمیا کو اپنی حدود میں شامل کیا تھا اور اس کے بعد ملک کے مشرقی علاقے میں علیحدگی پسندوں کی کھلم کھلا حمایت شروع کی تھی، جس کے نتیجے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ ماسکو کے تعلقات میں تلخی بڑھ گئی تھی۔

یوکرین کے مطابق ڈونباس کے نام سے مشہور یوکرین کے صنعتی مرکز میں لڑائی کے دوران 14 ہزار سے زائد افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا اور روس، یوکرین کے معاملے پر سخت تنازع سے بچنے کے لیے پرعزم

دوسری جانب روس کے صدر ویلادیمیر پیوٹن نے گزشتہ ہفتے یوکرین پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کی جانب سے 2015 کے معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کے صدر متعصب قوم پرست فورس کے زیر اثر ہیں۔

یوکرین کے صدر ویلادومیر زیلنسکی نے کہا تھا کہ وہ روس کے ساتھ کسی صورت مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

روس اس طرح کے مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اپنا رہا ہے کہ جب تک ایجنڈا واضح نہیں ہوگا اس وقت تک کسی اجلاس کا امکان نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں