نئے بلدیاتی قانون کےخلاف جماعت اسلامی کی سندھ ہائیکورٹ میں درخواست

سندھ اسمبلی کے باہر جماعت اسلامی کے دھرنے میں بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی—تصویر: جماعت اسلامی کراچی فیس بک
سندھ اسمبلی کے باہر جماعت اسلامی کے دھرنے میں بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی—تصویر: جماعت اسلامی کراچی فیس بک

کراچی: جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی سے حال ہی میں منظور ہونے والے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (ایس ایل جی اے) 2021 کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ نعیم الرحمٰن نے اپنے وکیل کے ذریعے ایک پٹیشن دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیا قانون آئین کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں چیف سیکریٹری سندھ اور بلدیاتی حکومت کے سیکریٹری کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 11 دسمبر کو ایس ایل جی اے 2021 منظور کیا گیا تھا جس میں استدعا کی گئی کہ فریقین کو نافذ شدہ ترامیم کے تحت کوئی بھی کارروائی کرنے سے روکا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:گورنر سندھ کا بلدیاتی حکومت ترمیمی بل پر دستخط سے انکار

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ صرف بلدیاتی حکومت کے صحت تعلیم، میونسپل اداروں کی ملکیت میں موجود اراضی کا کنٹرول اور دیگر بنیادی کاموں کا اختیار لینے کے لیے یہ ترامیم کی گئیں۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ ریونیو جنریشن کے اہم اختیارات بھی بلدیاتی حکومت سے لے لیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں ادارے کمزور ہوجائیں گے۔

رہنما جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ بلدیاتی حکومتوں کی صلاحیت سے متعلق کسی بھی تشویش کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ صوبائی حکومت کا خود ان صلاحیتوں کو مجروح کرنے میں کردار ہے، اس لیے بلدیاتی حکومت کی مالی خود مختاری مزید کم کرنے کے بجائے اختیارات دے کر انہیں بحال کرنے کی ذمہ داری حکومت سندھ پر عائد ہوتی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی دفعات 14 اور 17 کی متعدد شقوں میں کی گئی ترامیم کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا جائے۔

مزید پڑھیں:اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود سندھ اسمبلی میں بلدیاتی ترمیمی بل منظور

ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے یہ درخواست بھی کی کہ فریقین اور ان کی جانب سے کام کرنے والے تمام افراد یا اتھارٹی کو بلدیاتی حکومت سے ان ترامیم کے تحت کوئی مالی یا انتظامی اختیار لینے سے روکا جائے۔

بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم احمد کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون سازی آئین سے متصادم ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک دور میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، تعلیمی ادارے، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور طبی سہولیات کراچی کی شہری حکومت کے انتظامی کنٹرول کے ماتحت تھے لیکن پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے ’لسانی وجوہات‘ پر تمام اداروں کا کنٹرول لے لیا۔

خیال رہے کہ جماعت اسلامی سے قبل پاک سرزمین پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان بھی نئے بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرچکے ہیں۔

جماعت اسلامی کے دھرنے میں خواتین کی شرکت

بلدیاتی قانون کے خلاف مسلسل چوتھے روز سندھ اسمبلی کے باہر جاری جماعت اسلامی کے دھرنے میں پیر کے روز سیکڑوں خواتین نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں:وفاقی وزیر کا سندھ کے بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف مہم چلانے کا عندیہ

خواتین کارکنان پلے کارڈز اور پوسٹرز اٹھائے اور نعرے لگاتی ہوئی دھرنے کے مقام پر پہنچیں جن کی قیادت جماعت اسلامی خواتین ونگ کی سربراہ اسما سفیر کررہی تھیں۔

اس موقع پر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ’ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ہم ٹھوس اور نتیجہ خیز بات چیت چاہتے ہیں، ہم یہاں میڈیا کوریج اور شہ سرخیاں بنانے کے لیے موجود نہیں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج سنجیدہ مطالبے پر ہے، حکومت سندھ کی جانب سے ہماری درخواستوں پر توجہ نہ دینے کے باعث ہم اس اقدام پر مجبور ہوئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں