25 سالہ مائرہ* کہتی ہیں 'میں اپنی ملازمت کھو چکی ہوں اور مکان کا کرایہ دینا بھی محال ہوگیا ہے۔ میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہوں لیکن کالج کی فیس کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ نہ کوئی سہارا ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی ایسا ہے جسے میری پرواہ ہو، اسی لیے اکثر خود سے پوچھتی رہتی ہوں کہ میں نے اس دنیا میں جنم ہی کیوں لیا۔ میرے جینے یا مرنے سے کیا کسی کو کوئی فرق پڑے گا؟'

ٹورنٹو میں واقع ذہنی صحت کی بحالی کے مرکز میں اپنی شفٹ کے دوران میں جب ایسی باتیں سن کر اپنے گھر کی راہ لیتی ہوں تو پورے راستے مجھ پر خاموشی طاری رہتی ہے۔

میں نے ذہنی صحت کی بحالی کے مرکز میں عالمی وبا کے دوران کام کرنا شروع کیا اور وہاں یہ جان کر مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے کہ ذہنی صحت سے متعلق مسائل کس قدر عام ہوتے جا رہے ہیں۔ جب عمر کے ہر حصے سے تعلق رکھنے والے افراد کو انزائٹی یا گھبراہٹ، ڈپریشن اور خودکشی کی طرف مائل ہونے کے ساتھ ذہنی صحت سے جڑے متعدد مسائل کا شکار پاتی ہوں تو جسم میں کپکپی سی دوڑ جاتی ہے۔

آج بھی یہ تصور عام پایا جاتا ہے کہ ان مسائل کی بڑی حد تک ذمہ دار ہماری بایولوجی ہے: مثلاً اکثر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ ہمارے جینز ہمیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ کمزور بنا رہے ہیں یا پھر ان مسائل کا سبب دماغ میں کیمیائی عدم توازن ہے۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو آج بھی علاج کا اوّلین طریقہ تصور کیا جاتا ہے مطلب یہ کہ ان مسائل کا واحد مناسب حل ادویات کے استعمال کو قرار دیا جاتا ہے۔

تاہم جان ہری اپنی کتاب لوسٹ کنیکشن میں ان روایتی تصورات اور غلط فہمیوں پر اعتراض اٹھاتے ہیں۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے اور ذہنی صحت کی بحالی کے سفر کے اپنے 10 سالہ تجربے کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ ادویات سے قلیل المدت فائدہ تو حاصل ہوتا ہے لیکن یہ اپنا عادی بنا دیتی ہیں اور بنیادی مسائل ٹھیک کرنے کے بجائے محض علامات کا علاج کرتی ہیں‘۔

ڈپریشن اور انزائٹی کی زیادہ تر وجوہات کا تعلق ہماری بایولوجی سے زیادہ ہمارے ماحول اور طرزِ زندگی سے ہے۔ چنانچہ ڈپریشن اور انزائٹی کسی عدم توازن کا نہیں بلکہ زندگی کے تجربات پر ہمارے ردِعمل کا نتیجہ ہے۔

آج کل ڈپریشن اور انزائٹی کے شکار افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ معاشرے کے دیگر افراد سے بڑھتا عدم تعلق ہے۔ تعلق قائم کرنا ہم انسانوں کی فطرت میں ہے، ہم قبائل میں جنم لینے والی، اپنے پیاروں کے ہاتھوں پالی پوسی جانے والی اور اپنی شخصیت کو اپنے معاشرے کے رنگ میں ڈھالنے والی مخلوق ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ دورِ حاضر کی تیز رفتار دنیا میں ہم اپنے قبائل سے الگ ہوگئے ہیں اور ہم نے اپنے بارے میں ایک گروہ کی صورت میں اجتماعی حیثیت سے سوچنے کے بجائے الگ الگ فرد کی حیثیت سے اپنی سوچ کا زاویہ انفرادی حیثیت تک محدود کردیا ہے۔

آج کل ڈپریشن اور انزائٹی کے شکار افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ لوگوں سے بڑھتا عدم تعلق ہے—خاکہ سعد عارفی
آج کل ڈپریشن اور انزائٹی کے شکار افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ لوگوں سے بڑھتا عدم تعلق ہے—خاکہ سعد عارفی

موجودہ دور میں ہمیں بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی ضروریات کو خود پورا کرنے کے قابل بنو، کسی پر منحصر نہ رہو اور اپنا خیال خود رکھو، اسی لیے ہماری توجہ اپنی انفرادی ضروریات کو پورا کرنے پر مرکوز ہوگئی ہے۔ شادی کی تقریب، خاندانی میل ملاپ یا سماجی مواقعوں پر بھلے ہی ہم لوگوں سے گھرے ہوں لیکن ان سے معنی خیز گفتگو نہ کرنے کی وجہ سے ہم اپنے اندر گہرائی تک اکیلا پن محسوس کرتے ہیں۔

اپنی عمر کے 30 کے پیٹے میں آئی ٹی پروفیشنل کی حیثیت سے کام کرنے والی سارہ* کہتی ہیں کہ 'اگرچہ ہم سوشل میڈیا پر لوگوں سے سطحی طور پر تعلق تو قائم کرلیتے ہیں لیکن اپنی حقیقی زندگی میں لوگوں سے گہرے تعلقات قائم کرنے سے اکثر قاصر رہتے ہیں کہ جن سے ہم اپنے مسائل، خوشیاں اور غم بانٹ سکیں‘۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ 'انسٹاگرام پر میرے ایک ہزار فالوورز ہیں اور کم و بیش اتنے ہی لوگ فیس بک کے ذریعے جڑے ہیں۔ مگر جب میں ذہنی اور جذباتی طور پر مشکلات کا سامنا کر رہی تھی اس وقت مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جس سے میں اپنے احساسات کا اظہار کرسکوں۔ میں نے خود کو بہت ہی تنہا پایا اور احساس ہوا کہ یہ ساری دوستیاں کس قدر بے معنی تھیں'۔

ذہنی صحت کی بحالی کے مراکز جیسی خدمات ایک انسان کی سب سے بڑی اور بڑی حد تک نظر انداز کی گئیں نفسیاتی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ نفسیاتی ضروریات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ آپ کو دیکھا اور سنا جائے۔ لوگ اکیلے پن، تعلقات میں مسائل، غصے پر قابو نہ پانے، خودکشی کی سوچ، اسکول یا دفتر میں درپیش مسائل اور مختلف چیزوں کی لت میں پڑجانے جیسی وجوہات کی بنا پر فون کے ذریعے ان مراکز سے رابطہ کرتے ہیں اور ان پر کوئی رائے قائم کیے بغیر مدد فراہم کی جاتی ہے۔

49 سالہ ڈورین* اپنی دو بچیوں کو شوہر کے بغیر تنہا پال رہی ہیں۔ انہیں خوشی ہے کہ ذہنی صحت کی بحالی کے مرکز پر ان کی بات سننے والا کوئی شخص موجود ہے، وہ اس بات کی اہمیت کا اقرار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'میں جانتی ہوں کہ آپ میرے مسائل حل نہیں کرسکتے مگر جب کسی ایسے شخص سے بات کرتے ہیں جو آپ کی بات کو اہمیت دیتا ہے تو بڑی تسلی ملتی ہے۔ اگر آپ لوگ یہاں میری بات سننے کے لیے موجود نہیں ہوتے تو ناجانے میں کہاں جاتی یا کیا کر بیٹھتی‘۔

معنی خیز تعلقات کے فقدان کی وجہ سے ہم بڑی آسانی سے انزائٹی اور ڈپریشن کی زد میں آجاتے ہیں۔

یورپ، ایشیا، شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں ہونے والے متعدد مطالعوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ آپ مادیت پسند اور حرص و ہوس میں متبلا رہیں گے اتنا ہی زیادہ آپ الجھنوں اور اداسیوں کی زد میں آئیں گے۔ آئی فون یا تنخواہ میں اضافے جیسی مادی چیزیں ابتدائی طور پر تو خوشیاں فراہم کرسکتی ہیں۔ مگر کچھ وقت بعد وہ چیزیں بھی پرانی ہوجائیں گی اور پائیدار خوشیاں فراہم نہیں کریں گی، نہ ہی آپ اپنی زندگی بھرپور انداز میں گزارنے لگیں گے۔

سماجی موازنے اور خود کو دوسروں کے برابر بنانے کا دباؤ یا پھر کون سی گاڑی چلانی ہے یا اپنے بچے کی شادی کی تقریب کتنی شاہانہ ہونی چاہیے، اس طرح کی فکریں آپ کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ڈپریشن اور انزائٹی کے احساسات میں شدت پیدا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے بطور ایک معاشرہ ہم خود سے وہی حشر کر رہے ہیں جو بقول ہری فاسٹ فوڈ ہماری صحت سے حشر کرتا ہے۔

جس طرح بازاری کھانا ہماری غذائی ضروریات کو پورا نہیں کرتا اسی طرح بازاری اقدار ہماری نفسیاتی ضروریات کو پورا نہیں کرپاتیں۔ ایڈم نامی 41 سالہ کامیاب بزنس ایگزیکٹو کہتے ہیں کہ 'میرے پاس دنیا کی ہر آسائش ہے۔ ایک شاندار گھر، جدید برقی آلات اور گاڑیاں ہیں لیکن پھر بھی ہر صبح مجھے اپنے بستر سے نکلنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے‘۔

ہارورڈ بزنس اسکول کی جانب سے 2010ء میں خوشی پر 136 ممالک میں کروائے گئے ایک سروے کے مطابق سب سے زیادہ خوش وہ لوگ ہوتے ہیں جو بے غرض ہوکر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ دوسروں کی بھلائی چاہنے سے تناؤ اور انزائٹی کی سطح میں کمی کے ساتھ ہمارے جسم میں 'خوشی کا احساس پیدا کرنے والے' serotonin اور oxytocin جیسے ہارمونز کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔

اب باری آتی ہے ہمارے کام میں بے معنویت کے مسئلہ کی۔ 2011ء اور 2012ء کے درمیان گیلپ کی جانب سے 142 ممالک میں کروائے گئے ایک مفصل مطالعے میں لاکھوں افراد سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے کام کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ محض 13 فیصد افراد نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے کام کو لے کر پُرعزم ہیں یا اپنے ادارے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں، جبکہ 63 فیصد افراد نے یہ تسلیم کیا کہ وہ اپنی کام کی جگہوں پر محض اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور اپنے کام کو لے کر کسی قسم کا جذبہ نہیں رکھتے۔ دیگر 24 فیصد نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ کام سے کسی قسم کی دلچسپی نہیں رکھتے۔

ادھیڑ عمر ماریہ* نامی وکیل کہتی ہیں کہ 'کام سے کوئی امید نہیں، یہ محض ایک فریضہ ہے جو مجھے انجام دینا ہوتا ہے۔ میں مایوس ہوں لیکن وکیل بننے پر میرا بہت سارا وقت اور پیسہ خرچ ہوجانے کی وجہ سے میں خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتی ہوں اور جیسے تیسے کام کر رہی ہوں‘۔

آپ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والی ملازمت سے وابستگی آپ کے اندر توانائی کا احساس پیدا کرتی ہے، اسی لیے ایسی ملازمت کی تلاش اہم ہے جو آپ کے جذبے کو زندہ رکھتی ہو۔ بلاشبہ ہر کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق ملازمت نہیں ملتی اور زندگی کا چرکھا چلانے کے لیے استقامت کی اہمیت کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ مگر ان حالات میں انسانی تعلقات آپ کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم تنہا زندہ نہیں رہ سکتے۔ ٹیم ورک اور ایک دوسرے پر انحصار نہ صرف حیات کی بقا بلکہ خوشحالی کے لیے بھی اہم ہے۔ اپنے ذہنی مسائل کو تسلیم کرنا کمزوری کی علامت نہیں بلکہ یہ انسان ہونے کی نشانی ہے۔

برطانوی اداکار اور مصنف ڈیوڈ مچل کے بقول 'آپ جتنی چاہے گڑبڑ اور غلطیاں کریں۔ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ آپ میں خرابی ہے بلکہ یہ تو انسان ہونے کی نشانی ہے‘۔


شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم زعیم Jan 07, 2022 06:19pm
بہت خوب تحریر ہے آج کل سب کے بیچ میں رہتے ہوئے اکیلے پن کو اس سے زیادہ مدلل اندازمیں کسی نے نہیں لکھا