کراچی: جوڈیشل مجسٹریٹ نے گزشتہ روز ناظم جوکھیو قتل کیس میں حکومتی پراسیکیوٹر کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 2 موجودہ اراکین اسملبی سمیت 22 ملزمان کے خلاف پیش کی گئی حتمی تحقیقاتی رپورٹ پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

مقتول کے بھائی افضل جوکھیو نے 27 سالہ ناظم جوکھیو کے قتل میں پی پی پی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور ان کے بڑے بھائی رکن قومی اسمبلی جام عبد الکریم اور ان کے ملازمین کو نامزد کیا تھا۔

ناظم جوکھیو غیر ملکی مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکنے پر با اثر افراد کے عتاب کا شکار ہوئے تھے۔

ڈان اخبار کی خبر کے مطابق ہفتے کے روز یہ معاملہ تفتیشی افسر (آئی او) امتیاز لاشاری کی جانب سے حتمی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ (ملیر) الطاف حسین کے سامنے پیش کیا گیا، تاہم اس دوران نہ ہی آئی او اور نہ ہی پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیے: ناظم جوکھیو کے اہلخانہ سمجھوتہ کرتے ہیں تو ریاست مقدمے کی پیروی کرے گی، شیریں مزاری

درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ مظہر جونیجو نے کہا کہ آئی او کی جانب سے ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لیے تاخیری حربے اختیار کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کی جانب سے دیے گئے وقت میں بھی استغاثہ حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع نہیں کرواسکی۔

جج نے اس رویے کا نوٹس لیتے ہوئے جج نے عدالت کو کیس کی تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرنے کے لیے آئی او اور پراسیکیوٹر کو طلب کرلیا۔

بعد ازاں، پراسیکیوٹر نے عدالت میں پیش ہوکر 6 صفحات پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروادی۔

رپورٹ کے مندرجات کا جائزہ لینے کے بعد جج نے 13 جنوری کے لیے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

21 دسمبر کو آئی او کی جانب سے ایک عبوری تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں 22 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا تاہم حیران کن طور پر مبینہ جرم کو انجام دینے میں ان کے کردار کی وضاحت نہیں کی گئی تھی۔

آئی او نے رکن قومی اسمبلی جام کریم، ان کے دو غیر ملکی مہمانوں، نیاز سالار، احمد شورو، عطا محمد اور زاہیم اور پانچ نامعلوم گارڈز کو نامزد کیا تھا اور ان سب کو مفرور قرار یا تھا، جبکہ ممبر صوبائی اسمبلی جام اویس، ان کے ملازمین مہر علی، حیدر علی، محمد معراج، جمال واحد اور عبدالرزاق سمیت 6 گرفتار ملزمان کو بھی نامزد کیا تھا۔

مزید پڑھیے: ’وزیراعظم نے جوکھیو قتل کیس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا’

رپورٹ میں آئی او کا کہنا تھا کہ انہوں نے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے فارم ہاؤس کا بھی معائنہ کیا اور مقتول کے خون سے لتھڑا ہوا ایک چاقو اور ایک لکڑی کا تختہ برآمد کیا جس سے مبینہ طور پر مقتول کو دوران حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان نے مقتول کے کپڑے اور موبائل فون جلا کر ایک کنویں میں پھینک دیے تھے تاہم انہیں برآمد کر کے فرانزک تجزیہ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا، انہوں نے مزید کہا کہ پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ، ڈی وی آر کے فرانزک تجزیہ، مقتول کے موبائل فون اور ایک USB ڈرائیو کے تجزیے کا ابھی انتظار کیا جارہا ہے۔

یہ مقدمہ میمن گوٹھ پولیس اسٹیشن میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 365 (اغوا)، 302 (قتل عمد) اور 34 (مشترکہ نیت) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں