’وزیراعظم نے جوکھیو قتل کیس کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا’

02 جنوری 2022
مقتول کی بیوہ شیریں جوکھیو کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کی سرداروں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
مقتول کی بیوہ شیریں جوکھیو کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کی سرداروں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

سندھ اسمبلی کے قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ناظم جوکھیو قتل کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ بات ضلع ملیر کے سالار گوٹھ میں مقتول ناظم جوکھیو کے لواحقین سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات میں کہی۔

حلیم عادل شیخ نے ناظم جوکھیو کی بیوہ، مقتول کی والدہ اور دیگر اہل خانہ سے ملاقات میں کیس کی تفصیلات اور پیش رفت سے متعلق دریافت کیا اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ناظم جوکھیو کے قاتل جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:ناظم جوکھیو قتل: پی پی پی کے دو اراکین اسمبلی سمیت 23ملزمان چارج شیٹ میں شامل

انہوں نے کہا کہ ہم نے سندھ اسمبلی میں ناظم جوکھیو کا کیس لڑا اور بہیمانہ فعل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے لیکن جب ہم نے فریقین کے درمیان عدالت سے باہر تصفیے کی بات چیت کا سنا تو کچھ عرصے تک اس لیے کوئی مداخلت نہیں کی کہ ہم پر معاملے کو خراب کرنے کا الزام نہ لگایا جائے۔

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ وہ اب مقتول کی بیوہ کی اپیل پر مدد کے لیے دوبارہ آئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شیریں جوکھیو ہماری بیٹی ہے اور اس کو انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وڈیروں کی جانب سے متاثرہ فیملی پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہاہے، سرداری نظام نے پورے سندھ کو تباہ کردیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ ہماری جماعت کسی سیاسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے جذبے کے تحت مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو کے بھائی کی قتل کے مقدمے سے رکن قومی اسمبلی کا نام نکالنے کیلئے درخواست

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ناظم جوکھیو کی لاش دیکھی ہے جس کے جسم کے ہر حصے پر تشدد کے نشانات تھے۔

حلیم عادل شیخ نے بااثر مخالفین کے سامنے انصاف کے لیے ڈٹے رہنے پر ناظم جوکھیو کی بیوہ، ماں اور دیگر اہل خانہ کی بہادری اور حوصلے کی تعریف کی۔

شیریں جوکھیو نے پی ٹی آئی وفد کو بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے لواحقین کو سرکاری نوکری اور دیگر مراعات کی پیشکش کی ہے۔

جس پر حلیم عادل شیخ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کے قانون ساز نے بے رحمی سے بےگناہ جوان کو قتل کیا اور وزیراعلیٰ سندھ مجرموں کو سزا سے بچانے کے لیے نوکریوں کی پیش کش کررہے ہیں۔

حلیم عادل شیخ نے ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو سرعام پھانسی لگانے کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر مقتول کی بیوہ شیریں جوکھیو کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کی سرداروں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ صرف اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ انہوں نے سرداروں کو چیلنج کرنے کی ہمت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:ناظم جوکھیو قتل کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کی نئی ٹیم تشکیل

انصاف کی اپیل کرتے ہوئے شیریں جوکھیو نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے انصاف کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا لیکن اپنے کی تکمیل کے لیے کچھ نہیں کیا اور نہ ہی ملزمان کو ان کےعہدوں سے ہٹایا گیا۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے مقتول سماجی کارکن کے بھائی افضل جوکھیو کا کہنا تھا کہ انصاف کی فراہمی سندھ حکومت کی ذمے داری ہے لیکن صوبائی وزرا اپنے گھروں میں سورہے ہیں۔

مقتول ناطم جوکھیو کے لواحقین نے اپوزیشن لیڈر کی آمد اور تعاون کی یقین دہانی پر اظہار تشکر کیا۔

اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کے ہمراہ پی ٹی آئی کے مقامی عہدیداران ڈاکٹر مسرور سیال، حاجی حفیظ جوکھیو اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

ناظم جوکھیو کا قتل

کراچی کے علاقے ملیر میں 3 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔

ایس ایچ او نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے مقدمے میں ملوث ہونے کے شبہے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں مبینہ قتل، لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

مذکورہ ویڈیو میں مقتول نے بتایا تھا کہ اس نے تلورکا شکار کرنے والے چند افراد کی ویڈیو اپنے موبائل فون پر بنائی تھی جس کی وجہ سے اس کا فون چھین لیا گیا اور مارا پیٹا بھی گیا تھا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ان کا فون واپس کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی تھی۔

تاہم فون کرنے کے باوجود بھی جب پولیس مدد کے لیے نہیں پہنچی اور شکار کرنے والے واپس چلے گئے تو وہ تشدد کی شکایت درج کرانے کے لیے مقامی تھانے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: گورنر سندھ کا ’وفاقی جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا عندیہ

مقتول نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون آئے اور کہا گیا کہ وہ ویڈیو ڈیلیٹ کردیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا اگر انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کے ذمے دار وہ لوگ ہوں گے جن افراد کے گھر ’شکاری مہمان‘ ٹھہرے تھے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بدترین تشدد کی تصدیق

مقتول ناظم جوکھیو کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر محمد اریب نے کیا تھا جس میں انکشاف ہوا کہ سر سمیت پورے جسم پر بے شمار زخم تھے۔

بدترین تشدد کے باعث مقتول کو اندرونی طور پر خون کا رساؤ شروع ہوگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق لاش پر سخت اور نوکیلی چیزوں سے تشدد کیے جانے کے نشانات تھے جبکہ نازک عضو پر بھی بری طرح مارنے کے نشان تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پورے چہرے پر سرخ اور جامنی رنگ کے متعدد زخم تھے جب کہ آنکھیں گہرے زخموں کے ساتھ سوجی ہوئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں