قومی سلامتی پالیسی پارلیمان میں پیش کی جاسکتی ہے، معید یوسف

16 جنوری 2022
معید یوسف نے  نے اس بات پر زور دیا کہ پالیسی کی کلیدی سمت کو کبھی پلٹا نہیں جائے گا—تصویر: پی آئی ڈی
معید یوسف نے نے اس بات پر زور دیا کہ پالیسی کی کلیدی سمت کو کبھی پلٹا نہیں جائے گا—تصویر: پی آئی ڈی

قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) ایک 'ارتقا پذیر دستاویز' ہے اور اس کے لیے ریاست کے تمام ستونوں کی جانب سے فکری بحث اور تعمیری دلائل کی ضرورت ہے تاکہ اتفاق رائے پیدا ہو جس سے اس کی پائیداری میں اضافہ ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ اپوزیشن نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں نیشنل سیکیورٹی ڈویژن کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو پالیسی پر دی گئی بریفنگ کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ وہ وسیع تر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پالیسی کو پارلیمنٹ یا ایوان کی کمیٹیوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں گے۔

تاہم گزشتہ سال دو مرتبہ کمیٹی کا اجلاس بہت اچھا رہا جب آرمی چیف نے قومی سلامتی کے امور پر بریفنگ دی تھی۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اپوزیشن کو قومی سلامتی کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، اسے تمام اختلافات سے بالاتر رہنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:وفاقی کابینہ نے ملک کی پہلی ’قومی سلامتی پالیسی‘ کی منظوری دے دی، معید یوسف

انہوں نے کہا تھا کہ اگر اپوزیشن قومی سلامتی پالیسی کے بارے میں باضابطہ بریفنگ حاصل کرنا اور اپنی تجاویز فراہم نہیں کرنا چاہتی تو کیا وہ اس اہم پالیسی کو مؤخر کرنا چاہتی ہے جس میں پہلے ہی سات سال لگ چکے ہیں؟

اس حوالے سے معید یوسف نے گورنر ہاؤس میں سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پالیسی کے بہتر عملدرآمد کے لیے اس کی منظوری سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) سے گزرنے کے بعد سول ملٹری اتفاق رائے ہوچکا ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ فوج نے اس پالیسی کو تسلیم کیا ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد حسین سید کی سربراہی میں سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع نے انہیں 7 جنوری کو ان کیمرہ بریفنگ کے لیے بلایا اور پالیسی کو سراہا، ساتھ ہی واضح کیا کہ 'یہ کہنا غیر منصفانہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کو بحث کرنے اور اپنی رائے دینے کا کوئی موقع نہ دے کر اتفاق رائے نہیں چاہتی'۔

مزید پڑھیں:قومی سلامتی کے امور پر فوج، قانون سازوں کو بریفنگ دے گی

تاہم انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں پالیسی سازی، کسی بھی دوسرے ملک کی طرح، ایک انتظامی کام اور موجودہ حکومت کا اختیار ہے، ریاست کے تمام ستون اپنی تجاویز دے سکتے ہیں لیکن منظوری کا عمل حکومت کا دائرہ کار ہے۔

معید یوسف نے کہا کہ چونکہ قومی سلامتی پالیسی ایک ارتقا پذیر دستاویز ہے لہٰذا حکومت نے اس میں اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ایک لازمی سالانہ جائزہ لیا جائے کیونکہ ہر روز بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح جب بھی کوئی نئی حکومت اقتدار سنبھالتی ہے اس کے پاس اس کا جائزہ لینے کے اختیارات ہوں گے۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ یہ دستاویز تمام پالیسیوں کے لیے ایک چھتری کا کام کرے گی جن کا قومی سلامتی سے کوئی تعلق ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ملک میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی کا اعلان آج ہوگا

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پالیسی کی کلیدی سمت کو کبھی پلٹا نہیں جائے گا۔

معید یوسف نے مزید کہا کہ قومی سلامتی ڈویژن پالیسی کے نفاذ کی نگرانی کرے گا اور وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نفاذ کے مرحلے میں اس سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر ماہ اپنی پیش رفت رپورٹ کا جائزہ لے گی۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس پالیسی دستاویز میں ترجیحی اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے وہ عوام کو جاری نہیں کی گئی، پالیسی کا صرف 60 صفحات پر مشتمل جاری کردہ ورژن ہی پبلک ڈومین میں رہے گا، تاہم ارکان پارلیمنٹ کو کلاسیفائیڈ ورژن پر بھی بریفنگ دی گئی تھی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پالیسی ایک مخصوص بحران سے نکلنے کے بارے میں رہنما اصول پیش کرتی رہے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں