قانون نافذ کرنے والے اداروں پر نظر رکھنے کیلئے نئی انسداد دہشت گردی پالیسی تیار

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2022
حتمی منظوری سے قبل پالیسی کا مسودہ صوبائی حکومتوں کو ارسال کیا گیا ہے — فائل فوٹو: آن لائن
حتمی منظوری سے قبل پالیسی کا مسودہ صوبائی حکومتوں کو ارسال کیا گیا ہے — فائل فوٹو: آن لائن

معاشرے میں دیگر معاملات کے ساتھ بڑھتے ہوئے شدت پسندانہ رجحانات کو روکنے کے اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر نظر رکھنے اور ان کی صفوں میں موجود مسائل کا باعث بننے والے عناصر کی بیخ کنی کے مقصد کے تحت نئی پالیسی تیار کرلی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹھوس اقدامات پر زور دینے والی قومی سلامتی پالیسی کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت نے قومی سطح کی ایک اور اہم پالیسی کی منظوری دی ہے جس کا اہم مقصد لوگوں کے دلوں کو جیتنا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے نئی قومی انسداد پرتشدد انتہا پسندی (این سی وی ای) پالیسی 2021 کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، وکلا اور اقلیتی نمائندوں سے مشاورت کے بعد منظور کیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حتمی منظوری کے لیے وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں جمع کرانے سے قبل وفاقی حکومت نے این سی وی ای کا تازہ ترین مسودہ صوبائی حکومتوں کو ارسال کیا ہے۔

وزارت داخلہ اور تمام دستاویزات کو ایک جگہ جمع کرنے والی قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے حکام کے مطابق ’این سی وی ای‘ پالیسی گزشتہ سال اگست میں نظر ثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان کی سفارشات کی روشنی میں بنائی گئی ہے۔

پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی دفعہ جاری کیے گئے نیشنل ایکشن پلان کے نظر ثانی شدہ مسودے کا 13واں نکتہ حکومت سے انسداد پرتشدد انتہا پسندی (سی وی ای) پالیسی سے متعلق ادارہ بنانے اور اس کے اطلاق کا مطالبہ کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت داخلہ کا نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل نو کا منصوبہ

ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران غیر فعال رہنے والے شہری محکمے کی جانب سے یہ ایک اہم کام ہے جو مکمل کیا گیا ہے۔

سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کی ہلاکت اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے پرتشدد دھرنوں جن کے دوران کم از کم 9 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی، ان واقعات کے بعد جارحانہ شدت پسندی کے معاملات واضح طور پر سامنے آئے تھے۔

اس طرح کے پر تشدد اقدامات کے باوجود ٹی ایل پی کارکنان اور قیادت کے خلاف تمام مقدمات حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد ختم کردیے گئے تھے جبکہ معاہدے کو منظر عام پر نہیں لایا گیا تھا۔

وزرا نے عزم ظاہر کیا تھا کہ حکومت اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے پالیسی پر کام کر رہی ہے۔

مشاورتی عمل

مشاورت کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ این سی وی ای پالیسی، نیکٹا کی مانیٹرنگ اور کیپیسٹی برانچ نے تیار کی ہے اور پالیسی کی تیاری کے دوران تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے 250 سے زائد ماہرین سے مشاورت کی گئی۔

مبصرین نے کہا کہ حالیہ دنوں میں سامنے لائی گئی قومی سلامتی پالیسی پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کی گئی تھی کہ پالیسی کو خفیہ طور پر بنایا گیا اور اس کی تیاری میں سیاسی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی گئی تھی۔

ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ قومی سلامتی پالیسی سے مختلف این سی وی ای پالیسی میں تمام سرگرمیوں، کرداروں کے ساتھ ساتھ کارکردگی کو ظاہر کرنے والے نکات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد جاری، 121 افراد کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا

اہم نکات

وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ پالیسی میں 5 کلیدی مقاصد اور اہداف بیان کیے گئے ہیں۔

مسودے کے مطابق این سی وی ای پالیسی میں وفاقی سطح پر مختلف ڈویژن کے تمام صوبوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مزید بہتر روابط پر توجہ دی گئی ہے۔

مسودے میں سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان کے انسداد دہشت گردی اسٹریٹجی فریم ورک کے تحت پرتشدد شدت پسندی کو روکنے کے لیے ملک بھر کے تمام سرکاری اور نجی شعبوں کے انسٹی ٹیوٹ میں تعلیمی ماحول پر نظر ثانی کی جائے۔

پالیسی کے دستاویز کے مطابق این سی وی ای کا مقصد پرتشدد شدت پسندی کو روکنے کے سلسلے میں قومی تعلیمی نظام جس میں تعلیمی نصاب، اساتذہ شامل ہیں کو مضبوط کرنا ہے۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ انتہا پسندی کے رجحانات کسی ایک تعلیمی نظام تک محدود نہیں ہیں اور انتہا پسندی کے خلاف کارروائی تمام تعلیمی اداروں بشمول مدارس، سرکاری اور نجی اداروں، سیکنڈری اسکولوں، کالجز اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا حصہ ہونی چاہیے۔

پالیسی میں مساجد کو منظم کرنے اور علما، خطیبوں، ذاکرین اور پیشواؤں وغیرہ کے ذریعے منبر کے غلط استعمال کو روکنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گہا ہے کہ ان مذہبی رہنماؤں کے بیانات مثبت پیغامات پر مبنی ہونے چاہئیں اور تمام سیاسی، فرقہ ورانہ انتہا پسندی اور پرتشدد سوچ سے پاک ہونے چاہئیں۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ عبادت کی تمام جگہیں ایک قانونی فریم ور کے تحت مقامی انتظامیہ کے ذریعے ریگولیٹ ہونی چاہئیں۔

این سی وی ای پالیسی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی طرز پر ایک یکساں سی وی ای قانون کی اہمیت پر بھی زور دیتی ہے جہاں مختلف قانون اور دائرہ اختیار سے متعلق معاملات کو حل کیا جائے۔

دستاویز میں اسپیشل برانچ میں سی وی ای یونٹ کے قیام اور محکمہ انسداد دہشت گردی کو پولیس اہلکاروں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے پراسیکیوشن کی ذمہ داریاں دینے کی ضروت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں