انارکلی دھماکا تحقیقات: ناکارہ سیف سٹی کیمرے دہشت گرد کا سراغ لگانے میں ناکام

24 جنوری 2022
ڈی آئی جی کامران خان نے بتایا کہ لاہور میں 30 فیصد کیمرے طویل عرصے سے آف لائن ہیں — فائل فوٹو / اے ایف پی
ڈی آئی جی کامران خان نے بتایا کہ لاہور میں 30 فیصد کیمرے طویل عرصے سے آف لائن ہیں — فائل فوٹو / اے ایف پی

پنجاب سیف سٹی اتھارٹی (پی ایس سی اے) پولیس کے لیے 'سفید ہاتھی' ثابت ہورہی ہے کیونکہ انارکلی دھماکے کے وقت جائے وقوع پر لگے زیادہ تر سی سی ٹی وی کیمرے آف لائن تھے جس کی وجہ سے دھماکا خیز مواد نصب کرنے والے مشتبہ دہشت گرد کا سراغ لگانے میں ناکامی ہوئی۔

اس منصوبے کے آغاز کا بنیادی مقصد دہشت گردی کی روک تھام تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں (ایل ای ایز) کے اہلکار سیف سٹی اتھارٹی کے اکثر کیمروں کے غیر فعال ہونے پر حیران ہیں۔

اہلکار نے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ انارکلی کی پرہجوم پان منڈی میں بم نصب کرنے والے شخص کا سیف سٹی کیمروں کے ذریعے سراغ لگایا جاسکے گا جس سے ہائی پروفائل کیس کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ انارکلی میں نجی طور پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ملزم کو جائے وقوع سے نکلتے دیکھا گیا تھا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اس کا تعاقب کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: انارکلی دھماکے کی تحقیقات کے سلسلے میں 'زیر حراست' چاروں طالبعلم رہا

اہلکار نے بتایا کہ سبزی منڈی میں اس کی موجودگی کا پتہ چلا تھا، لیکن بعد میں مشتبہ شخص پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں کے ریڈار سے باہر نکل گیا، کیونکہ ان میں سے کچھ کیمرے اس وقت کام نہیں کر رہے تھے۔

اہلکار نے کہا کہ یہ صورتحال خصوصی طور پر انارکلی دہشت گردی کیس کے تناظر میں بلائے گئے اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہائی کمانڈ کے لیے شدید مایوسی کا باعث بنیں۔

اہلکار نے افسوس کا اظہار کیا کہ منصوبے کے قیام کا بنیادی مقصد اس وقت ناکام ثابت ہوا جب یہ دہشت گرد کا سراغ لگانے کے لیے پولیس اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کو مدد دینے میں ناکام رہا۔

پی ایس سی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ڈی آئی جی کامران خان نے بتایا کہ لاہور میں صرف 30 فیصد کیمرے طویل عرصے سے آف لائن ہیں۔

مزید پڑھیں: انارکلی بازار دھماکا: تحقیقات میں سی آئی اے کی شمولیت، مزید مشتبہ افراد گرفتار

مذکورہ افسر اتھارٹی میں متعدد ذمہ داریوں کا چارج سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کے دور میں اس پروجیکٹ میں پچھلے دو برسوں سے کیمرے کام نہیں کر رہے۔

اس سے قبل ایک ایڈیشنل آئی جی رینک (گریڈ 21) کے پولیس افسر، بطور منیجنگ ڈائریکٹر منصوبے کی سربراہی کر رہے تھے، جبکہ ڈی آئی جی رینک کے 2 پولیس افسران بھی ان کے ساتھ مختلف اہم فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق سیف سٹی اتھارٹی ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہے اور ناقص کیمروں کا معاملہ رپورٹ نہیں ہوسکا۔

انہوں نے بتایا کہ 101 ’فور جی‘ ٹاورز میں سے 2 مکمل طور پر بند تھے اور زیادہ تر بیک اپ کی سہولت کے بغیر تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بجلی جاتی ہے تو کمزور فور جی سگنلز کی وجہ سے 15 کالز پولیس کو نہیں پہنچائی جاسکتیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: انارکلی بازار میں بم دھماکا، 3 افراد جاں بحق

عہدیدار نے بتایا کہ سیف سٹی اتھارٹی کو اس وقت بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب حال ہی میں لاہور میں بارش ہوئی اور 92 فور جی ٹاورز بیک اپ نہ ہونے کی وجہ سے آف لائن ہوگئے، نتیجتاً تقریباً 8 ہزار کیمروں میں سے اب تقریباً 2 ہزار کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی یو سی اے آر-15 کو بھی مسائل کا سامنا ہے جس کو پنجاب بھر سے ایمرجنسی 15 کالز موصول ہوتی ہیں کیونکہ 7 کمپیوٹر سسٹم خراب ہیں، باقی 33 کمپیوٹر سسٹمز کے ہیڈ فون ٹوٹ چکے ہیں اور کچھ میں ہیڈ فون ہی نہیں ہیں۔

اہلکار نے مزید بتایا کہ پولیس کمیونی کیشن افسران کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت گزشتہ ایک ماہ سے معطل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں