سندھ ہائیکورٹ: فائرنگ رینج کے خلاف کیس میں سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری

27 جنوری 2022
سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کیا —فائل فوٹو:فیس بک
سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کیا —فائل فوٹو:فیس بک

دھابیجی میں مختلف دیہاتوں کو فوجی مشقوں، تربیت گاہوں اور فائرنگ رینج فیلڈ بنانے کے جاری نوٹی فکیشن کے خلاف دائر درخواستوں پر جواب دینے کے لیے سندھ ہائی کورٹ نے سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کردیا ہے

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تقریبا 115 درخواستوں گزاروں نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن میں فائرنگ رینج فیلڈ اور دیگر فوجی تربیتوں کےلیے زمین کی اجازت دینے کے باعث ان کے گوٹھ متاثر ہو رہے ہیں۔

جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سیکریٹری دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

ملٹری اسٹیٹ افسر کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ دھابیجی میں 50 ہزار 600 ایکٹر زمین وزارت دفاع کے لیے مختص تھی اور یہ ہی زمین فوجی حکام کو فائرنگ رینج اور فوجی مشقوں کے مقاصد کے لیے 2004 میں جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق الاٹ کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا سندھ بھر میں سرکاری زمینوں سے قبضہ ختم کرانے کا حکم

ان کا مزید کہنا تھا کہ 50 ہزار 600 ایکٹر میں سے 13 ہزار 500 ایکٹر زمین سندھ حکومت کی جانب سے بغیر کسی معاوضے کے دفاعی مقاصد کے لیے وزارت دفاع کو ٹرانسفر کی گئی جس کی ریونیو اتھارٹیز کی جانب سے ملکیت بھی تبدیل کردی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ درخواست گزاروں کا دعویٰ قانونی حقداری دستاویزات کے بغیر ہے اور متنازع زمین وفاقی حکومت کی ملکیت ہے، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کی پیشگی اجازت کے بغیر سندھ حکومت یا اور کسی محکمے کی جانب سے دائرہ اختیار استعمال کرنے کی کوشش کرنا غیر قانونی ہے۔

تاہم ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنر ملیر اور بن قاسم نے اپنی رپورٹس میں کہا ہےکہ وزارت دفاع کے دعووں کی بنیاد پر دھابیجی فائرنگ رینج فیلڈ کے حکام نے 50 ہزار سے 51 ہزار ایکٹر زمین کے ارد گرد پلر بنادیے ہیں اور اس علاقے میں مختلف منظور شدہ گاؤں، کابلی زمین، قبرستان اور کئی تالاب بھی موجود ہیں۔

مزید پڑھیں:سندھ ہائی کورٹ نے 1500 کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کی درخواستیں خارج کردیں

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ نے ابتدائی طور پر 13 ہزار 500 ایکٹر زمین 99 سال کے لیے دھابیجی فائرنگ فیلڈ رینج بنانے کے لیے وزارت دفاع کو لیز کی تھی، اور سال 2000 میں گورنر سندھ نے زمین کو مفت میں استعمال کرنے کی اجازت دی تھی تاہم زمین سندھ حکومت کو ملکیت رہے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے دیہہ دھاندیو اور دیہہ کوٹیریرو میں وزارت دفاع کو صرف 13 ہزار 500 ایکٹر زمین لیز کی تھی جس میں گاؤں، کابلی زمین اور قبرستان شامل نہیں تھے۔

مختیارکار ملیر نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ درخواست گزار 15 دیہاتوں کے رہنے والے ہیں جو کہ مبینہ نوٹیفکیشن سے متاثر ہوئے ہیں۔

درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ وہ اور ان کے آباد و اجداد ان گوٹھوں میں 1820 سے رہ رہے ہیں اور ان کے مالکانہ حقوق کو گوٹھ کے رہائشیوں کی حیثیت سے وقتا فوقتا تسلیم کیا جاتا رہا ہے اور ان میں سے کچھ گوٹھوں کو 30 سال کی لیز دی گئی ہے جبکہ سندھ حکومت نے درخواست گزاروں کے گوٹھوں کو منظور کرنے اور ریگولرائز کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ ہائی کورٹ، ماتحت عدالتوں میں ججز کے تقرر کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب ہمیں زرعی زمین کاشت کرنے اور گھر بنانے کی اجازت نہیں ہے۔

درخواست گزاروں نے رہائشی علاقوں اور آبادیوں کو فیلڈ فائرنگ رینج اور فوجی تربیتوں، مشقوں کے لیے استعمال کی اجازت دینے والے نوٹی فکیشن کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ منوورز، فیلڈ فائرنگ رینج اینڈ آرٹلری پریکٹس 1938 ایکٹ کی شق 10 کے تحت ایسا نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ قرار دیا جائے کہ مبینہ نوٹیفکیشن، 1938 کے ایکٹ، 1972 کے کالونائزیشن ایکٹ اور 1894 ایکیوزیشن ایکٹ میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق جاری نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں