کہیں یہ پچھلے سال کی کہانی تو نہیں دہرائی جارہی؟ یعنی ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کرو اور پھر جتنا بھی ہدف ملے، اس کا کامیابی سے تعاقب کرو۔ یہ سادہ سا فارمولا پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے پچھلے سیزن کا مزا اچھا خاصا خراب کرچکا ہے۔

پچھلے سال اسی نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں چھٹے سیزن کے 14 میچ کھیلے گئے تھے جن میں سے ابتدائی 13 مقابلے ان ٹیموں نے جیتے جنہوں نے ٹاس جیت کر ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا تھا۔ یہاں کھیلا گیا صرف آخری مقابلہ ایسا تھا کہ جس میں ملتان سلطانز ٹاس جیتنے کے باوجود کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا دیا گیا ہدف حاصل نہیں کر پائے تھے لیکن پھر تو کورونا وائرس کی وجہ سے لیگ ہی ملتوی ہوگئی تھی اور تین ماہ بعد بقیہ مقابلے متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے تھے۔

لگتا ہے اس بار بھی کچھ یہی کہانی چل رہی ہے۔ ساتویں سیزن کے آغاز کو 3 دن گزر چکے ہیں۔ افتتاحی مقابلے میں ملتان سلطانز نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا اور پھر کراچی کا دیا گیا ہدف آسانی سے حاصل کیا۔ دوسرے روز پشاور زلمی نے ٹاس جیتنے کے بعد کوئٹہ کا دیا گیا 191 رنز کا ہدف بھی جا لیا۔

تیسرے روز کا پہلا مقابلہ ’آل پنجاب ڈربی‘ تھا، یعنی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی دونوں ٹیموں لاہور اور ملتان کے مابین ہوا اور یہاں تو حد ہی ہوگئی۔ ملتان نے ٹاس جیتا اور پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور لاہور سے 206 رنز کھا لیے۔ یہ بہت بڑا ہدف تھا لیکن ملتان نے تو قلندروں کو بھی دھمال ڈالنے پر مجبور کردیا۔ آخری اوور تک میچ سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوچکا تھا لیکن پھر بھی کامیابی ملتان ہی کو ملی یعنی مسلسل تیسرا مقابلہ، جس میں ٹاس جیتنے اور ہدف کا تعاقب کرنے والا کامیاب ٹھیرا۔

چوتھے مقابلے میں کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز آمنے سامنے آئے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ٹاس جیتنے والے کوئٹہ نے پہلے کراچی کو کھیلنے کی دعوت دی اور پھر دیے گئے ہدف کو حاصل کرکے اس ’عظیم روایت‘ کو زندہ رکھا۔

اور ابھی تو ’ابتدائے عشق روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا‘۔


آل پنجاب ڈربی


نتائج سے قطع نظر لاہور-ملتان مقابلہ تھا بڑا شاندار۔ دونوں ٹیموں کی بیٹنگ دیکھنے کے قابل رہی۔ لاہور قلندرز کے فخر زمان کے صرف 35 گیندوں پر طوفانی 76 رنز بنائے، پھر کامران غلام کی 43 رنز کی اننگ اور آخر میں ڈیوڈ ویزے اور راشد خان کے چھکے۔ لیکن، یہ تو کیسٹ کی صرف ایک سائیڈ تھی۔

جیسے ہی ملتان نے ہدف کا تعاقب شروع کیا، لگتا تھا 207 رنز جیسے بڑے ہدف کا ان پر کوئی دباؤ ہے ہی نہیں۔ بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے 15 اوورز میں ہی اسکور 150 رنز تک پہنچ چکا تھا۔ شان مسعود اور کپتان محمد رضوان زبردست بلے بازی کر رہے تھے اور لاہور کے نئے نویلے کپتان شاہین آفریدی کی ناتجربہ کاری کُھل کر سامنے آگئی۔

انہوں نے کئی فاش غلطیاں کیں، مثلاً ابتدا ہی میں شان مسعود کو روکنے کے لیے محمد حفیظ کو استعمال نہ کرنا۔ اس کی نشاندہی کمنٹری باکس میں موجود وقار یونس نے بھی کی۔ شان آخر میں 50 گیندوں پر 83 رنز کی اننگز کھیل گئے۔

ویسے میچ اس وقت نازک مرحلے میں داخل ہوگیا تھا جب آخری 3 اوورز میں ملتان کو 26 رنز درکار تھے۔ یہاں حارث رؤف اور شاہین نے 2 بہت زبردست اوورز پھینکے۔ حارث نے گوکہ ایک چھکا بھی کھایا لیکن 9 رنز دے کر رائلی روسو کی وکٹ بھی لی۔ پھر شاہین نے تو 19 ویں اوور میں کمال ہی کردیا۔ صرف 1 رنز دے کر 2 وکٹیں سمیٹیں اور میچ کانٹے کا ہوگیا۔

اب تمام سیٹ بیٹسمین آؤٹ ہوجانے کے بعد لگتا تھا کہ بازی پلٹ جائے گی اور قلندرز جیت جائیں گے۔ ملتان کو آخری اوور میں 16 رنز درکار تھے اور گیند حارث رؤف کے ہاتھ میں تھی جو خاصے جارحانہ موڈ میں تھے لیکن کریز پر موجود خوشدل شاہ نے ان کی ساری جارح مزاجی نکال دی اور پہلی تینوں گیندوں پر چوکے اور چوتھی پر ایک کرارا چھکا لگا کر 4 گیندوں پر ہی میچ کا فیصلہ کردیا۔


سب سے بڑا 'رن چیز'


یہ پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں کسی بھی ٹیم کا سب سے کامیاب 'رن چیز' تھا، یعنی سب سے بڑے ہدف کا کامیاب تعاقب۔ ویسے لاہور نے میچ میں غلبہ حاصل کیا، پھر اسے اپنے ہاتھ سے جانے دیا، جاتے جاتے اس پر پھر اپنی گرفت مضبوط کی اور آخر میں یکدم ہی حریف کی جھولی میں ڈال دیا۔

خیر، یہ تو لاہور کے پرانے کام ہیں۔ سوائے 2021ء کے لاہور قلندرز نے پی ایس ایل کے ہر سیزن کا آغاز ناکامی کے ساتھ ہی کیا ہے بلکہ 2018ء میں تو وہ ابتدائی 6 میچ ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوئے تھے، اس لیے ان کی ملتان کے خلاف شکست میں ’نیا پن‘ کچھ نہیں تھا۔ 2022ء میں ایک مرتبہ پھر قلندروں نے شکست سے آغاز لیا ہے، آگے اللہ خیر کرے!


نسیم کے سامنے کنگز کی ایک نہ چلی


دن کے دوسرے میچ کی طرف دیکھیں تو ہمیں اس میں کانٹے دار مقابلے کی توقع تھی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نسیم شاہ کی طوفانی باؤلنگ کے سامنے کراچی کنگز کی ایک نہ چلی اور ٹاس ہارنے کے بعد وہ صرف 113 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔

شرجیل خان اور بابر اعظم کے بعد مڈل آرڈر میں کوئی ڈبل فگرز تک میں داخل نہیں ہوسکا۔ غیر ملکی کھلاڑیوں پر کھڑا پورا مڈل آرڈر کوئٹہ کی باؤلنگ کے وار سہہ نہیں پایا۔ صرف 34 رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔ یہ تو آخر میں عامر یامین کے 20 اور عماد وسیم کے 26 رنز نے تہرے ہندسے میں پہنچا دیا، ورنہ 113 رنز کا آسرا بھی نہیں تھا۔

نسیم شاہ نے جو باؤلنگ کی، ایسی آج کل بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کرکٹ میں گیند اور بلے کا توازن بُری طرح بگڑ چکا ہے اور کھیل بیٹسمین کے حق میں بہت زیادہ جھک چکا ہے، ایسے وقت میں صرف 20 رنز دے کر 5 وکٹوں کی کارکردگی بڑی مشکل سے دیکھنے کو ملتی ہے۔

گلیڈی ایٹرز کو ویسے ہی ہدف کے تعاقب کا ایڈوانٹیج حاصل تھا، لیکن کراچی کے لیے ضروری تھا کہ وہ وکٹیں لے کر کوئٹہ کو ملنے والی برتری کا خاتمہ کریں لیکن 12ویں اوور تک اوپنرز ہی 76 رنز بنا چکے تھے۔ احسن علی نے ایک اور میچ میں ایک اور بہترین اننگ کھیلی اور 43 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 57 رنز کے ساتھ میدان سے واپس آئے۔ کپتان سرفراز احمد نے 16ویں اوور میں مسلسل 3 چوکے لگا کر میچ کا خاتمہ کیا۔


شکست خوردہ کراچی اور لاہور اب آمنے سامنے


اب صورتحال یہ ہے کہ پہلے میچ کی مایوس کُن شکست کے بعد بالآخر کوئٹہ نے پوائنٹس ٹیبل پر پہلی کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یہاں ملتان سلطانز دونوں میچ جیت کر پہلے نمبر پر ہیں جبکہ کوئٹہ اور پشاور کے 2، 2 پوائنٹس ہیں۔ باقی لاہور اور کراچی نے ابھی تک کامیابی کا مزا نہیں چکھا۔

کراچی کے لیے حالات ذرا تشویشناک ہیں کیونکہ وہ دونوں مقابلے ہار چکا ہے اور اس کا اگلا مقابلہ بھی روایتی حریف لاہور قلندرز سے ہے۔ یہاں اگر کراچی نے کامیابی حاصل کرلی تو اس کے حوصلے بڑھ سکتے ہیں جبکہ مسلسل دوسری شکست لاہور کے لیے پریشانی کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں