ایران کا پابندیوں سے استثنیٰ کو ناکافی قرار دیتے ہوئے امریکی اقدام کا خیر مقدم

06 فروری 2022
امریکا نے ویانا مذاکرات کے اہم مرحلے پر گزشتہ روز ایران کے لیے اپنی پابندیوں پر استثنیٰ بحال کردیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکا نے ویانا مذاکرات کے اہم مرحلے پر گزشتہ روز ایران کے لیے اپنی پابندیوں پر استثنیٰ بحال کردیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

ایران کا کہنا ہے کہ امریکا کے پابندیاں ہٹانے کے اقدامات اچھے ہیں لیکن کافی نہیں ہیں، ایران کا یہ بیان امریکا کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ ایران کے سول جوہری پروگرام سے پابندیاں ہٹا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا کا پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اس کے جوہری پروگرام پر 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مذاکرات کے اگلے مرحلے میں پہنچ گئے ہیں، مذاکرات میں پابندیوں میں نرمی کا معاملہ ایک اہم مسئلہ ہے۔

آئی ایس این اے نیوز ایجنسی نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'کچھ پابندیوں کا ہٹانا حقیقی معنوں میں امریکا کے جذبہ خیر سگالی کی ترجمانی کر سکتا ہے، امریکی حکام اس کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ جو کچھ کاغذ پر ہوتا ہے وہ اچھا ہوتا ہے لیکن کافی نہیں ہوتا'۔

ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری نے بھی تہران کے اس مؤقف کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اقدام ناکافی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جوہری مذاکرات آخری مرحلے میں داخل، امریکا نے ایران کیلئے پابندیوں پر استثنیٰ بحال کردیا

علی شمخانی کا اپنی ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ ایران کے لیے حقیقی، مؤثر اور قابل تصدیق معاشی فائدہ معاہدے کی تشکیل کے لیے ضروری شرط ہے۔

پابندیاں ہٹانے کے دکھاوے کو تعمیری کوشش نہیں سمجھا جاتا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وہ 2015 کے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن یا (جے سی پی او اے) ڈیل کی جانب واپس جانے کے لیے ضروری تکنیکی قدم کے طور پر ایران کے سول جوہری پروگرام سے پابندیاں ختم کر رہا ہے۔   سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور ایران پر دوبارہ کڑی پابندیاں عائد کر دیں تھیں جس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگیا تھا۔

پابندیوں سے استثنیٰ، تحفظ اور عدم پھیلاؤ کو فروغ دینے کے ساتھ ان ممالک پر امریکی پابندیوں کو لاگو کیے بغیر دوسرے ممالک اور کمپنیوں کو ایران کے سول نیوکلیئر پروگرام میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی میں پیشرفت

ایران کے سول پروگرام میں افزودہ یورینیم کے بڑھتے ذخیرے شامل ہیں۔   امیر عبداللہیان نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ جے سی پی او اے مذاکرات میں ایک اہم معاملہ یہ ضمانت حاصل کرنا ہے کہ امریکا 2015 کے معاہدے سے دوبارہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی، قانونی اور اقتصادی شعبوں میں ضمانتیں چاہتے ہیں اور ان کا مطالبہ کرتے ہیں، کچھ شعبوں میں معاہدے طے پا چکے ہیں۔

ایران، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے ساتھ بلا واسطہ اور امریکا کے ساتھ بالواسطہ ویانا مذاکرات میں بات چیت کر رہا ہے، ان مذاکرات کے بارے میں مختلف فریقوں کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جس مرحلے پر مذاکرات میں شریک ملکوں کو اہم سیاسی فیصلے کرنے ہوں گے۔

امیر عبداللہیان کا کہنا تھا کہ ویانا بات چیت میں ہماری مذاکراتی ٹیم سنجیدگی سے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے مغرب سے ٹھوس ضمانتیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران کا جوہری معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان

ایرانی میڈیا کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا ہے کہ ایران کسی بھی ایسے عمل پر غور کر رہا ہے جو (جے سی پی او اے) معاہدے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صحیح سمت میں ہو۔

مذاکرات میں شامل یورپی ممالک نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کے استثنیٰ کے موقع سے فائدہ اٹھائے۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے مذاکرات کاروں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ امریکی اقدام سے ویانا میں سی پی او اے جاری جے کی واپسی کے لیے ضروری تکنیکی بات چیت کی سہولت ملنی چاہیے۔

ہم ایران پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس موقع سے فوری فائدہ اٹھائے، کیونکہ پابندیوں پر سے استثنیٰ کا وقت اس نکتے پر زوردیتا ہے جس پر ہم امریکا کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں، ہمارے پاس جے سی پی او اے مذاکرات کو کامیاب نتیجے تک پہنچانے کے لیے بہت کم وقت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں