جوہری مذاکرات آخری مرحلے میں داخل، امریکا نے ایران کیلئے پابندیوں پر استثنیٰ بحال کردیا

05 فروری 2022
امریکا اور ایران کے درمیان اپریل سے اب تک ویانا میں بالواسطہ مذاکرات کے 8 دور ہوچکے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکا اور ایران کے درمیان اپریل سے اب تک ویانا میں بالواسطہ مذاکرات کے 8 دور ہوچکے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

ایران کے ساتھ 2015 کے عالمی جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے عالمی جوہری تعاون منصوبے کے تحت امریکا اور ایران کے درمیان بلواسطہ جاری مذکرات کے حتمی مرحلے میں داخل ہونے کے ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایران پر عائد پابندیوں پر استثنیٰ بحال کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز‘ کے مطابق پابندیوں سے استثنیٰ نے روسی، چینی اور یورپی کمپنیوں کو جوہری عدم پھیلاؤ کا کام کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ مؤثر طریقے سے ایرانی جوہری سائٹس کو ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کرنا مشکل ہو۔

بحال کیا گیا استثنیٰ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں 2019 اور 2020 میں امریکا نے منسوخ کردیا تھا جو جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگئے تھے۔

دونوں ممالک کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا مقصد یہ ہے کہ امریکا معاہدے میں واپس آجائے اور ایران اس معاہدے پر عمل درآمد دوبارہ شروع کردے۔

یہ معاہدہ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں کیا گیا تھا اور جو بائیڈن نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ امریکا کو اس معاہدے میں واپس لانے کی کوشش کریں گے۔

امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کی دستخط شدہ ایک رپورٹ محکمہ خارجہ نے کانگریس کو بھیجی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پابندیوں پر استثنیٰ کی بحالی سے ایران، چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ اور امریکا سمیت کئی ممالک کے ایک گروپ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں واپسی کے متعلق ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی بحالی میں پیشرفت

اس معاہدے کو باضابطہ طور پر مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کا نام دیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان سرگرمیوں کے حوالے سے پابندیوں سے استثنیٰ ان مذاکرات کو آسان بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو جے سی پی او اے کے مکمل نفاذ کے لیے امریکا کی معاہدے میں واپسی میں مدد کرے گی اور ایران کی، پلان آف ایکشن کے وعدوں پر عمل درآمد کی طرف واپسی کے لیے بنیاد رکھے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ امریکا کے جوہری عدم پھیلاؤ اور جوہری تحفظ کے مفادات کو پورا کرنے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، یہ ان مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے پالیسی صوابدید کے معاملے کے طور پر جاری کیا جارہا ہے جبکہ معاہدے کا مقصد کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان اقدامات میں ایران کے اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر کا دوبارہ ڈیزائن، مستحکم آئی سوٹوپ کی پیداوار کے لیے اس کی فوردو سہولت کی تیاری اور ترمیم، اس کے بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ سے متعلق آپریشنز، تربیت اور خدمات شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار

امریکا اور ایران کے درمیان اپریل سے اب تک ویانا میں بالواسطہ مذاکرات کے 8 دور ہوچکے ہیں، ان مذاکرات کا مقصد اس معاہدے کو بحال کرنا ہے جس کے تحت تہران پر سے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے بدلے میں پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں، اس بارے میں تاحال کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے کہ مذاکرات کا نواں راؤنڈ کب شروع ہوگا لیکن اب توقعات بہت بڑھ گئی ہیں کہ مذکرات کا اگلا مرحلہ آئندہ ہفتے ہو سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2018 میں معاہدے سے باہر نکلنے اور دوبارہ سخت پابندیاں عائد کرنے کے بعد ایران نے بتدریج معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی تھی، مغربی سفارت کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایران کی جوہری پیش رفت کے بعد معاہدے کی طرف واپسی کا بہت کم امکان ہے۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ ویانا میں ہونے والے حالیہ مذاکرات اب تک کے سب سے اہم مذاکرات تھے۔

اہلکار کا کہنا تھا کہ اختلافات کی فہرست کو کم کرنے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور اب سیاسی فیصلوں کا وقت آگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی پابندیاں ختم ہونے تک جوہری پروگرام میں تخفیف ممکن نہیں، ایران

امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر اہلکار کا شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ تکنیکی بات چیت کی اجازت دینے کے لیے پابندیوں سے استثنیٰ دینے کی ضرورت تھی، وہ تکنیکی مذاکرات معاہدے میں واپسی کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل تھے۔

انہوں نے کہا کہ استثنیٰ کو بحال کرنا اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ امریکا معاہدے میں واپسی کے لیے مفاہمت تک پہنچنے کے راستے پر ہے۔

یوروایشیا گروپ کے تبصرہ نگار ہنری روم کا کہنا تھا کہ پابندیوں سے استثنیٰ کی بحالی پیش رفت کا ایک مناسب اشارہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پابندیوں سے استثنیٰ خیر سگالی کے اظہار کا ایک طریقہ یا ایران کے لیے ایک سہولت ہے لیکن اس سے زیادہ یہ ایک تکنیکی قدم ہے جس کا مقصد ویانا میں جاری مذاکرات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں