نمک ایسی چیز ہے جس کے بغیر کھانا نامکمل اور بے ذائقہ محسوس ہوتا ہے اور طبی ماہرین کی ہدایات کے مطابق دن بھر میں 2300 ملی گرام (ایک کھانے کا چمچ) نمک ہی استعمال کرنا چاہئے۔

بیشتر افراد کو یہ بھی معلوم ہے کہ غذا میں نمک کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہوتا ہے مگر بہت کم کو اس کا علم ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور کس حد تک ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق بیشتر افراد یہ جان کر حیران ہوجاتے ہیں کہ نمک کس حد تک ان کی صحت پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

موجودہ عہد میں گھر سے باہر کا رجحان زیادہ ہوگیا ہے اور بازاری غذاؤں میں نمک کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ نمک سے جسم کے اندر کیا کچھ ہوسکتا ہے۔

دل سے آغاز کرتے ہیں

خون کے گردشی نظام پر نمک کے اثرات واضح ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر دل کو پمپ سمجھا جائے تو شریانیں پائپس کی طرح کام کرتی ہیں اور ان میں دباؤ یا پریشر خون کی مقدار کے گزرنے کے نتیجے میں بڑھتا ہے بلکہ پائپس کا حجم گھٹ جانے پر بھی بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔

نمک یہ دونوں کام کرتا ہے، جب گردشی نظام میں نمک کی زیادہ مقدار ہو تو دل زیادہ مقدار میں خون پمپ کرتا ہے جس سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ نمک شریانوں کو تنگ کردیتا ہے، جس سے بھی بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔

مختصر اور طویل المدتی نقصانات

ضرورت سے زیادہ نمک کو جزوبدن بنانے کے 30 منٹ کے اندر شریانوں کی خود کو پھیلانے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے، ہائی بلڈ پریشر کا تسلسل برقرار رہنے سے زیادہ نقصان کا خطرہ ہوتا ہے یعنی ہارٹ اٹیک، فالج اور دیگر مسائل۔

مگر ماہرین کے مطابق اچھی خبر یہ ہے کہ اضافی نمک کے استعمال کو چھوٹنے سے فوری فائدہ ہوتا ہے، اگر روزمرہ کی غذاؤں میں نمک کی مقدار میں نمایاں کمی لائی جائے تو بلڈ پریشر چند گھنٹوں یا دنوں میں کم ہوجاتا ہے۔

اس کمی کو برقرار رکھنا طویل المعیاد بنیادوں پر نمایاں فرق کا باعث بنتا ہے، جیسے برطانیہ میں کمرشل فوڈز میں نمک کی مقدار میں کمی لانے کے چند برسوں کے اندر وہاں ہارٹ اٹیک اور دیگر منفی نتائج کی شرح میں کمی آئی، جو بہت نمایاں تھی۔

پورے جسم پر اثرات

دل سے ہٹ کر نمک کا زیادہ استعمال گردوں پر بھی دباؤ بڑھاتا ہے جس کے افعال متاثر ہوتے ہیں اور وہ نمک کو مناسب طریقے سے فلٹر نہیں کرپاتے۔

اس کا نتیجہ ایڑیوں کی سوجن سے لے کر دل اور پھیپھڑوں کے ارگرد سیال جمع ہونے جیسے مسائل کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

اضافی نمک خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا کر اور ہائی بلڈ پریشر کے ذریعے دماغ کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے جو کہ فالج کا خطرہ بڑھانے والا ایک بنیادی عنصر بھی ہے۔

اور ہاں اس سے دماغ کے وہ افعال بھی متاثر ہوتے ہیں جو نمک کے توازن اور بلڈ پریشر کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔

مدافعتی نظام

حالیہ تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا کہ نمک مدافعتی نظام پر بھی اثرانداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں امراض قلب اور دیگر مسائل سے ہٹ کر جسمانی ورم میں اضافہ ہوتا ہے۔

اضافی نمک معدے میں موجود بیکٹریا پر بھی اثراندا ہوتا ہے جس سے بھی ورم اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

ہر ایک پر مختلف اثرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم پر نمک کے اثرات کے میکنزمز کو ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا ہے۔

جیسے کچھ افراد کا بلڈ پریشر نمک کھانے سے نہیں بڑھتا مگر دیگر میں اس حوالے سے حساسیت ہوتی ہے یعنی معمولی مقدار سے بھی بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

مگر بیشتر افراد کے لیے یہ ایک سادہ حقیقت ہے کہ نمک کا کم استعمال صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے۔

صرف گھر ہی نہیں باہر بھی خیال رکھیں

نمک اور سوڈیم بنیادی طور پر ایک نہیں، مگر زیادہ تر پراسیس ہونے والا اور ریسٹورنٹس میں استعمال ہونے والا سوڈیم نمک ہوتا ہے، جس کے باعث دونوں کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔

ایک بڑے برگر میں ایک ہزار ملی گرام سے بھی زیادہ سوڈیم ہوسکتا ہے جبکہ فرنچ فرائیز میں یہ مقدار 400 ملی گرام تک ہوسکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اسی لیے لوگوں کو گھر کے کھانوں کو یادہ ترجیح دینی چاہیے اور نمک کے علاوہ دیگر مسالا جات کا استعمال کرنا چاہیے۔

ایک حالیہ تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ سوڈیم کی مقدار میں کسی بھی قسم کی کمی سے بلڈ پریشر گھٹ جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں