اگر دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے تو پرویز خٹک محروم کیوں؟ مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 12 فروری 2022
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت پر تنقید کی — فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت پر تنقید کی — فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام اور اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم کی جانب سے 10 وفاقی وزارتوں کو بہترین کارکردگی کی بنیاد پر اسناد دینے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے تو وزیر دفاع پرویز خٹک کو محروم کیوں رکھا۔

لاہور میں جامعیہ مدنیہ میں تقریب سے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام میں سیاست کے موضوع پر بات کی اور کہا کہ ہماری سیاست کی عملی تعبیر آج کل جو ہمارے اور آپ کے سامنے ہے، وہ نہ ادھر ہے اور نہ ادھر ہے اور مخنث قسم کی حکومت ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ہے کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ حسن کارکردگی پر کل انہوں نے چند وزرا کو تمغے اور اسناد عطا کیے ہیں، اسناد کب دی جاتی ہیں، اسناد اس وقت دی جاتی ہیں جب کھیل ختم ہوجاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ انہوں نے اپنا کھیل ختم ہونے کا عندیہ دے دیا ہے، اسی لیے ہم نے رات کو اپنے آنے والے مستقبل کا عندیہ دے دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایسے لوگوں کو تمغے دیے ہیں، کبھی کہا معاشی بہتری کے اشارے مل گئے ہیں، کبھی کہتے ہیں دنیا نے ہماری معاشی ترقی کو تسلیم کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ نے خود کہا ہے تو پھر ہمارے معیشت اور خزانے کے وزیر کو کیوں محروم رکھا، آپ تو کہتے ہیں ہم نے بڑے خارجہ تعلقات بنائے ہیں اور افغانستان پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی ہوا، جسے وہ ایک کامیاب خارجہ پالیسی کی علامت قرار دیتے ہیں، تو پھر شاہ محمود قریشی کو کیوں محروم رکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں ہمارا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، اگر دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے تو پھر پرویز خٹک کو کیوں محروم رکھا۔

انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات جہاں پر فواد چوہدری حکومت کا دفاع کرتے کرتے کچھ غیر ضروری زبان بھی استعمال کرتے ہیں، آداب کے دائرے سے بھی باہر چلے جاتے ہیں اور اخلاقیات کو بھی گھر چھوڑ آتے ہیں تو انہیں کیوں ایوارڈ نہیں نہیں دیا۔

مزید پڑھیں: وزارتوں کی کارکردگی تسلیم نہ کرنے پر اتحادی جماعتوں کو بھی تحفظات

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ ان کی کارکردگی اور آج تمغوں کا نتیجہ نکلا ہے، یہ سوچ کہاں سے آئی اور ترجیحات کس عقل کی ہیں، ایسے حکمرانوں سے اسی عقل کی توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ایسے کام کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں منی بجٹ آیا، ٹیکس بڑھا دیا اور شاید آج ہی پیٹرول کی قیمت 3 روپے اور بڑھا دی جائے، مہنگائی عروج پر ہے، عام آدمی کراہ رہا ہے، اپنے کرب کے ہاتھوں اپنے بچوں کو مار رہا ہے، پارلیمنٹ کے سامنے آکر بچے برائے فروخت کے کتبے لگا رہا ہے کہ ان کی بھوک گھر میں نہیں دیکھی جاتی اور تم تمغے دے رہے ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دن بھی ہم نے دیکھنے تھے اور تمغے بھی ایسے لوگوں کو جس کا نام لینا اپنی شرافت کے خلاف نظر آتا ہے۔

'چین، سی پیک معاملے پر نالاں ہے'

وزیراعظم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ خارجہ پالیسی کامیاب پالیسی ہے، جو بائیڈن مجھے فون نہیں کرتا میں کیا کروں، مودی میرا فون نہیں اٹھاتا میں کیا کروں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ چین کے دورے پر جاتا ہے تو چینی قیادت ویڈیو لنک پر گفتگو کرتی ہے، اگر ویڈیو لنک پر بات چیت کرنی تھی تو یہاں سے بات کر لیتے، اتنا خرچہ کیوں کیا، کہتے ہیں کووڈ 19 کی وجہ سے مجبوری تھی تو پھر اسی روز روس کے صدر کے ساتھ کیوں ملاقات کی۔

انہوں نے کہا کہ اس قسم کے عجوبوں سے ہمارا واسطہ ہے، پھر خارجہ پالیسی دیکھیں، کوئی پڑوسی آج ہم سے راضی نہیں ہے، بھارت تو ہمارا دشمن، ایران اس وقت خارجہ پالیسی کے اعتبار سے بھارت کے پلڑے میں کھڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت خارجہ کی کارکردگی تسلیم نہ کرنے پر شاہ محمود قریشی کا شدید احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ چین، سی پیک کے معاملے پر پاکستان سے نالاں ہے، جو صفر اور ڈیڑھ فیصد پر پاکستان کو مدد مہیا کرتا تھا آج اس نے سعودی عرب کا قرضہ ادا کرنے کے لیے آپ کو جو 2 ارب ڈالر دیے، 14 فیصد پر دیے ہیں اور کہتے ہیں کیوں نہ کریں، آپ نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ امریکا جو انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور کہتا ہے انسانی حقوق کے لیے کوئی جغرافیائی حدود نہیں، جہاں بھی انسانی حق کا مسئلہ ہوگا ہم پہنچیں گے تو پھر مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ اسلام کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اجازت سب کو ہونی چاہیے، انسانی حقوق کے سب قائل ہیں لیکن انسانی حق کی تشریح کیا ہے، اس پر کوئی اتفاق رائے کیا گیا ہے، جنیوا اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا منشور ہمیں 100 فیصد نہ قبول سہی لیکن جب آپ نے افغانستان پر حملہ کیا تو کیا آپ نے افغانستان میں وہاں کی حکومت اور ان کے طالبان کو جنیوا کنونشن کے حوالے سے ایک انسانی مجرم قیدی کا حق بھی دیا تھا۔

امریکا کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ کیا انسانی حق یہ ہے جو آپ نے گوانتاناموبے میں دیا، آپ نے بحری بیڑوں کے اندر جو عقوبت بنائے وہ انسانی حقوق تھے، شبرغان جیل میں جو کچھ ہوا کیا وہ انسانی حقوق تھا۔

انہوں نے کہا کہ جہاں آپ نے انسانوں کو کنٹینروں میں بند کردیا اور لوگ گھٹتے گھٹتے شہید ہوگئے، جہاں آج بھی بگرام جیل تک رسائی ہوئی اور کھولا گیا تو اس کی دیواروں میں آج بھی خون لگا ہوا، کیا امریکا اس انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔

'افغانستان میں انسانی المیہ پیدا ہوا تو انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں ہے؟'

ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس آئے تھے اور کہا ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو میں نے کہا آپ تو کہتے تھے وہاں کی معیشت خراب ہے، جب طالبان افغانستان میں داخل ہوئے اور آپ ان کی مدد نہیں کر رہے اور کہہ رہے ہیں وہاں بھوک آئے گی اور ایک انسانی المیہ پیدا ہوگا تو کیا آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے اور یہ انسانی حقوق میں نہیں آتا۔

مزید پڑھیں: وزرا کو تعریفی اسناد دینا قوم کے ساتھ مذاق ہے، اپوزیشن کی تنقید

انہوں نے کہا کہ آج اعلان کیا ہے ہم افغانستان کے منجمد اثاثوں کو طالبان کے حوالے نہیں کریں گے، یہ انسانی حقوق ہیں، ایک طرف معاہدہ بھی تم نے کیا، امارات اسلامیہ کو دستخط کرکے تم نے تسلیم کیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایک طرف تم نے افغانستان چھوڑا اور افغانستان ان کے حوالے ہوا، اب تو معاہدوں کے تحت بھی آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ آپ ان کے لیے معاشی مشکلات پیدا کریں اور ان کے منجمد اثاثے ان کے حوالے نہ کریں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے رابطوں اور اختلافات کے حوالے سے صحافیوں کے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے صحافیوں سے مشورہ کرکے حکمت عملی اور پالیسیاں نہیں بنانی ہیں، ہمیں ہر قدم باہمی مشاورت سے اٹھانا ہے اور ہم مطمئن ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں