افغانستان میں لاپتا ہوجانے والی چاروں خواتین رضاکار رہا

اپ ڈیٹ 14 فروری 2022
تمنا زریابی پریانی کی لاپتا ہونے سے کچھ دیر قبل کی فوٹیج سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تھی —فائل فوٹو: اے ایف پی
تمنا زریابی پریانی کی لاپتا ہونے سے کچھ دیر قبل کی فوٹیج سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تھی —فائل فوٹو: اے ایف پی

اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ افغانستان میں کئی ہفتے قبل لاپتا ہونے والی 4 خواتین رضاکاروں کو ملک کے عبوری حکمرانوں نے رہا کردیا۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان نے خواتین کی ریلیوں کو زبردستی منتشر کرکے، ناقدین کو حراست میں لے کر اور غیر منظور شدہ مظاہروں کی کوریج کرنے والے مقامی صحافیوں کو اکثر مار پیٹ کر اختلاف رائے کرنے والوں پر کریک ڈاؤن کیا ہے۔

تمنا زریابی پریانی، پروانہ ابراہیم خیل، زہرہ محمدی اور مرسل عیار طالبان مخالف ریلی میں شرکت کے بعد لاپتا ہو گئی تھیں لیکن افغانستان کے سخت گیر اسلام پسند حکمرانوں نے انہیں حراست میں لینے کی مسلسل تردید کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: 2 صحافیوں کی گمشدگی کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرادیا گیا

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ 'ان کے ٹھکانے اور حفاظت کے بارے میں طویل عرصے تک غیر یقینی کی صورتحال کے بعد چاروں 'غائب' افغان خواتین کارکنان کے ساتھ ساتھ ان کے لاپتا ہوجانے والے رشتہ داروں کو بھی عبوری حکمرانوں نے رہا کردیا ہے۔

پروانہ ابراہیم خیل اور تمنا زریابی پریانی 19 جنوری کو خواتین کے کام اور تعلیم کے حق کے لیے کابل میں نکالی گئی ایک ریلی میں شرکت کے چند روز بعد لاپتا ہوگئی تھیں، جس کے چند ہفتوں بعد زہرہ محمدی اور مرسل عیار بھی غائب ہوگئی تھیں اور ان کے کچھ رشتہ دار بھی لاپتا ہوگئے تھے۔

تمنا زریابی پریانی کی لاپتا ہونے سے کچھ دیر قبل کی فوٹیج سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تھی جس میں وہ پریشان اور دروازے پر طالبان جنگجوں کی موجودگی کا انتباہ دے رہی تھیں۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد غیر منظور شدہ مظاہروں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد حکام کو 'مخالفین یا قانون توڑنے والوں کو گرفتار کرنے اور نظر بند کرنے کا حق حاصل ہے۔'

مزید پڑھیں: طالبان نے غیر قانونی طور پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش پر درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا

طالبان نے 1996 سے 2001 تک اقتدار میں ان کے پہلے دور کی خصوصیت والے سخت قاعدے کے نرم ورژن کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم صوبائی حکام نے خواتین پر کئی پابندیاں عائد کر دی ہیں اور باقاعدہ ہدایات جاری کی ہیں کہ انہیں کیسے رہنا چاہیے۔

نئے حکام نے مؤثر طریقے سے خواتین کو کئی سرکاری شعبوں میں کام کرنے سے روک دیا ہے اور زیادہ تر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند ہیں، طالبان نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ خواتین شہروں اور قصبوں کے درمیان اس وقت تک سفر نہیں کر سکتیں جب تک کہ کوئی قریبی مرد رشتہ دار ان کے ساتھ نہ ہو۔

انہوں نے کابل اور دوسرے شہروں میں بہت سی دکانوں پر پوسٹر لگائے ہیں جن میں خواتین کو برقع پہننے کی ترغیب دی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں