اقرار الحسن اور ساتھیوں پر تشدد کے الزام میں آئی بی کے 5 عہدیدار معطل

اپ ڈیٹ 15 فروری 2022
اینکر نے بتایا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کے اراکین کو برہنہ کر کے ویڈیو بنائی گئیں—تصویر: ٹوئٹر
اینکر نے بتایا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کے اراکین کو برہنہ کر کے ویڈیو بنائی گئیں—تصویر: ٹوئٹر

معروف اینکر اور ٹی وی میزبان اقرار الحسن نے دعویٰ کیا ہے کہ حساس ادارے کے ایک اہلکار کی کرپشن بے نقاب کرنے پر انہیں اور ان کی ٹیم کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

مذکورہ واقعہ منظرِعام پر آنے کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) نے گریڈ 19 کے ایک ڈائریکٹر سمیت 5 عہدیداروں کو معطل کردیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز میں انہیں زخمی حالت میں ہسپتال میں دیکھا گیا۔

اس ضمن میں اے آر وائے کے ہی ایک اور اینکر وسیم بادامی نے ویڈیو شیئر کی جس میں اقرار الحسن نے کہا کہ تشدد کے نتیجے میں ان کے سر پر ٹانکے لگے ہیں، کندھا اتر گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک ادارے کے کرپٹ افسر کے بارے میں ان کے افسران کو آگاہ کیا گیا تو اسلحے کے زور پر دھمکا کر ٹیم کے کپڑے اتروا کر ویڈیو بنائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر صارفین کی تنقید، معروف شخصیات اقرار الحسن کی حمایت میں سامنے آگئیں

ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ ہم ذہنی طور پر صدمے سے گزر رہے ہیں، ٹیم کے سارے اراکین کے کپڑے اتروا کر ان پر تشدد کیا گیا۔

ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم کے اراکین کو برہنہ کر کے نہ صرف ویڈیو بنائی گئی بلکہ نازک اعضا پر کرنٹ لگایا گیا۔

بعدازاں ایک اور ویڈیو میں انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر نے انہیں ہسپتال میں رہنے کی تجویز دی تھی البتہ میں کچھ بہتر محسوس کررہا ہوں اس لیے گھر جانا چاہتا ہوں۔

دوسری جانب اے آر وائے ٹی وی کی ایک ٹوئٹر پوسٹ کے مطابق اقرار الحسن نے دعویٰ کیا کہ انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے ایک انسپکٹر کی بدعنوانی بے نقاب کرنے پر انہیں اور ان کی ٹیم کو برہنہ کر کے ویڈیوز بنائی گئیں اور دھمکایا گیا کہ اگر کرپشن کی ویڈیو منظرِ عام پر لائی گئی تو تمہاری ویڈیوز جاری کردی جائیں گی۔

اینکر کا کہنا تھا کرپشن بے نقاب کرنے پر ٹیم سرِ عام کو 3 گھنٹوں تک حبسِ بے جا میں رکھا گیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کی ٹیم کے 2 اراکین کے اعضائے مخصوصہ کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے جو اس وقت شدید تکلیف میں ہیں اور علاج جاری ہے۔

مزید پڑھیں:مینار پاکستان واقعہ: اقرار الحسن نے ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کی حمایت کرنے پر معافی مانگ لی

اقرار الحسن نے دعویٰ کیا کہ آئی بی کے ایک انسپکٹر دفتر کے باہر کھڑے ہو کر رشوت لے رہے تھے، جنہیں ہم نے رشوت دے کر اس کے ثبوت ان کے اعلیٰ افسران کو فراہم کیے۔

انہوں نے مزید دعوٰی کیا کہ بجائے اس کے کہ کرپٹ افسر کے خلاف کارروائی کی جاتی ڈائریکٹر آئی بی رضوان شاہ اپنے اہلکاروں کے ساتھ ٹیم سرِ عام پر ٹوٹ پڑے۔

اقرار الحسن نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے سامنے برہنہ کر کے آنکھوں پر پٹی باندھ کر کئی گھنٹے زمین پر بٹھایا گیا۔

5 اہلکار معطل

اس واقعے کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آئی بی افتخار نبی تونیو نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق 5 اہلکاروں کو 'اے آر وائی نیوز کی ٹیم کے ساتھ بدسلوکی اور صورتحال کو خراب کرنے پر' معطل کر دیا گیا ہے۔

معطل کیے گئے افسران میں سید محی الدین رضوان (ڈائریکٹر، گریڈ 19)، محمود علی (اسٹینوٹائپسٹ)، انعام علی (اسٹینوٹائپسٹ)، رجب علی (سب انسپکٹر) اور خاور شامل ہیں۔

اقرار الحسن نے اس پیشرفت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'میں وفاقی حکومت کا مشکور ہوں کہ انہوں نے فوری ایکشن لیا اور واقعے میں ملوث پانچوں افسران کو معطل کیا۔'

صحافیوں، اہم شخصیات کا اظہارِ مذمت

صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے ایک ٹوئٹر پیغام میں اقرار الحسن اور ان کی ٹیم پر ہونے والے حملے کی مذمت کی اور اے آر وائے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک وفاقی ادارے کے 5 عہدیداروں کو معطل کردیا گیا ہے۔

دوسری جانب معروف صحافی حامد میر نے بھی واقعے پر رد، عمل دیتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جینس بیورو نے اس دور کی یاد تازہ کر دی جب ایسا سلوک صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ لاہور اور اسلام آباد میں ہوا کرتا تھا۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں 30 سال پہلے کھڑا تھا، اقرار الحسن پر تشدد انتہائی قابل مذمت ہے یہ دور گزشتہ ادوار سے زیادہ بدتر زیادہ شرمناک ہے۔

معروف اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ قابل مذمت، اُمید ہے مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی، تشدد کسی طور قابل برداشت نہیں ہے۔

اس سلسلے میں وسیم بادامی نے اپنی ٹوئٹ میں سوال اٹھایا کہ اقرار الحسن پر اس تشدد کا ذمہ دار کون ہے؟ جب عام آدمی کے مقابلے میں بااثر سمجھے جانے والے افراد کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے تو عام آدمی کے ساتھ کیا نہیں ہوتا ہوگا؟

انہوں نے مزید کہا کہ اس کا 'مطلب تشدد کرنے والوں کو بھی یقین تھا کہ ان کا جو دل چاہے گا کریں گے اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتا'۔

تبصرے (0) بند ہیں