خصوصی فوائد کے اعلانات کے باوجود آئی ٹی کے فری لانسرز رجسٹریشن سے گریزاں

اپ ڈیٹ 16 فروری 2022
کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ فری لانسرز کو ہر ممکن مدد فراہم کی جانی چاہیے—فوٹو: ٹوئٹر/سینیٹ آف پاکستان
کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ فری لانسرز کو ہر ممکن مدد فراہم کی جانی چاہیے—فوٹو: ٹوئٹر/سینیٹ آف پاکستان

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کو بتایا گیا ہے کہ فری لانسرز کے لیے اعلان کردہ خصوصی فوائد کے باوجود ان میں سے اکثر حکومت کے ساتھ رجسٹریشن کرانے سے گریزاں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے چیئرمین کودا بابر نے وزارت آئی ٹی سے حکومت کی جانب سے فری لانسرز کو فراہم کی جانے والی سہولیات سے متعلق سوالات کیے۔

انہوں نے کہا کہ فری لانسرز آزادانہ طور پر مقامی اور بیرون ملک مقیم صارفین کے لیے آئی ٹی پروجیکٹس پر کام کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ دور دراز علاقوں میں بیٹھ کر بھی یہ کام کررہے ہیں۔

سینیٹر کودا بابر نے کہا کہ زیادہ تر فری لانسرز نچلے اور متوسط طبقے کے نوجوان ہیں اور وہ بغیر کسی حکومتی تعاون کے اربوں روپے کما رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’فری لانسرز کی مدد کیجیے، ان پر ٹیکس لگاکر مسائل نہ بڑھائیں‘

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے آئی ٹی سیکریٹری ڈاکٹر سہیل راجپوت نے کہا کہ وہ فری لانسرز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فری لانسرز کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہو چکا ہے، اگر وہ رجسٹر ہو جاتے ہیں تو وہ ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر اضافی فوائد حاصل کرسکتے ہیں، لیکن سرکاری ملازمین پر عدم اعتماد کی وجہ سے فری لانسرز نے تاحال رجسٹریشن کے عمل سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔

ڈاکٹر سہیل راجپوت نے کہا کہ ہم ان نوجوانوں کو ایک آگاہی مہم کے ذریعے باقاعدہ ڈیٹا بیس میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے انہیں رجسٹریشن کے فوائد کے بارے میں معلومات فراہم کی جائے گی۔

اجلاس کے شرکا کو بتایاگیا کہ مالیاتی لین دین اور ترسیلات زر کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ مقامی ادائیگی کے نظام اور بین الاقوامی مالیاتی لین دین کے طریقہ کار پر کام کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے باعث فری لانسنگ میں نمایاں کمی

کمیٹی کے ارکین نے کہا کہ فری لانسرز کو ہر ممکن مدد فراہم کی جانی چاہیے کیونکہ وہ قوم کا مستقبل اور معاشی ترقی کے لیے اثاثہ ہیں۔

سیکریٹری آئی ٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ملک بھر کی جامعات کے ساتھ مل کر مختلف تربیتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں تاکہ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق گریجویٹس تیار کر کے ان کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کیا جا سکے۔

کمیٹی نے قومی اسمبلی سے منظور شدہ نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (این آئی ٹی بی) ایکٹ 2022 جیسے اب سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے، کا جائزہ بھی لیا۔

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ مجوزہ بل کا مقصد این آئی ٹی بی کو ایک خودمختار ادارہ بنانا ہے تاکہ تمام رکاوٹوں کو دور کرکے ادارے کے کام کو مزید تیز اور بہتر بنایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں پے پال کیوں کام نہیں کر رہا؟ سیکریٹری خزانہ سے تحقیقات کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ ایک ذیلی ادارہ ہونے کے سبب این آئی ٹی بی کو اکثر مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے تیزی سے پھیلتے ہوئے آئی ٹی سیکٹر کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے سوال کیا کہ این آئی ٹی بی کی خود مختار حیثیت کے کیا اثرات ہوں گے اور اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا۔

عہدیداروں نے جواب دیا کہ این آئی ٹی بی کامیابی سے حکومت کو معیاری آئی ٹی خدمات فراہم کر رہا ہے جس میں ای-آفس، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر ایپلیکیشن اور دیگر شامل ہیں۔

این آئی ٹی بی انسانی وسائل کی ترقی پر بھی کام کر رہا تھا لیکن کسی بھی منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے گرانٹس حاصل کرنے کے لیے ایک طویل عمل سے گزرنا پڑتا ہے جو کہ آئی ٹی جیسے تیزی سے بڑھنے والے شعبے کے لیے موزوں نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے فری لانسرز دنیا کی پانچویں بڑی کمیونٹی ہیں، اسد عمر

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک خودمختار ادارہ بنانے سے غیر ضروری تاخیر کا خاتمہ ہوگا اور فیصلہ سازی کے عمل میں بھی بہتری آئے گی۔

کمیٹی کے چیئرمین نے ہدایت کی کہ مجوزہ بل کا کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں شق وار جائزہ لیا جائے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین نے کمیٹی کو فائیو جی ٹیکنالوجی کے لیے نئے اسپیکٹرم فروخت کرنے سے متعلق حکومتی منصوبے کے بارے میں بتایا جس کا آغاز 2023 میں کیا جانا ہے۔

اجلاس میں سینیٹرز ثنا جمالی، شہادت اعوان، ذیشان خانزادہ، عفانان اللہ خان، پلوشہ محمد زئی خان، سیمی ایزدی، نسیمہ احسان اور روبینہ خالد نے بھی شرکت کی۔

تبصرے (0) بند ہیں