پاک فوج کی عسکریت پسندوں کے خلاف پاک ۔ افغان سرحد پر کارروائیاں تیز

اپ ڈیٹ 18 فروری 2022
بلوچستان میں بدھ کو  ہونے والی تازہ ترین جھڑپ میں 6 عسکریت پسند مارے گئے—فوٹو: رائٹرز
بلوچستان میں بدھ کو ہونے والی تازہ ترین جھڑپ میں 6 عسکریت پسند مارے گئے—فوٹو: رائٹرز

افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد پاک ۔ افغان سرحد پر مزید امن اور استحکام دیکھنے کی امید عسکریت پسندوں کے حملوں کے تازہ سلسلے کے سبب ختم ہونے کے بعد پاکستان کی فوج نے حالیہ ہفتوں میں پاک افغان سرحد پر اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔

خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاک فوج کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروپوں نے گزشتہ ماہ کے دوران حملوں میں کم از کم 14 پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا، جن میں سے 3 حملے افغانستان سے داخل ہونے والے جنگجووں نے کیے۔

سنگین انسانی بحران سے نبرد آزما افغانستان کے نئے حکمران طالبان نے پاکستان کے خلاف کسی بھی حملے میں افغان سرزمین استعمال ہونے کی تردید کرتے ہیں۔

تاہم اس طرح کی یقین دہانیوں کے باوجود سرحد سے متعلق تنازعات دونوں ممالک کے تعلقات کو خراب کرسکتے ہیں جو دہائیوں سے دونوں ہمسایوں کے درمیان اختلافات کی وجہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، معید یوسف کو طالبان کی یقین دہانی

پاک فوج نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بدھ کو ہونے والی تازہ ترین جھڑپ میں 6 عسکریت پسند مارے گئے۔

پاک فوج کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ایسے افراد کے خاتمے کے لیے آپریشنز جاری رہیں گے۔

سرحدی کارروائیوں سے واقف ایک اعلیٰ پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ 'ہم نے انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے تاکہ عسکریت پسندوں کے داخلے کو روکنا یقینی بنایا جا سکے'۔

سرحد پر پاکستان کے اندر کا وسیع علاقہ کئی دہائیوں سے حکومت کے کنٹرول سے باہر تھا، جن پر آزاد پشتون قبائل کی حکومت تھی جن کی برادریوں کے لیے اس غیر نشان زد سرحد کے دونوں طرف آنا جانا معمول کی بات ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کی سرزمین اب بھی پاکستان کےخلاف استعمال ہورہی ہے، معید یوسف

تاہم پاکستان اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہے جس کا مقصد اس ناہموار علاقے کو مرکزی حکومت کے کنٹرول میں لانا، باڑ کے ساتھ سرحد کی حد بندی کرنا اور سخت بارڈر کنٹرول سسٹم کے مطابق یہاں سے آنے جانے والوں کو پابند کرنا ہے۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور سیکیورٹی اہلکار نے کہا کہ 'باغیوں اور عسکریت پسندوں سمیت ہم ان تمام عناصر کو نشانہ بنارہے ہیں جو خطرہ ہیں'۔

افغان طالبان کی پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہونے کی تردید

پاکستان، افغانستان پر امریکا کے 20 سالہ قبضے کے دوران باضابطہ طور پر امریکا کا اتحادی تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ برسوں سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔

تاہم پاکستان اس وقت عسکریت پسندوں کی کاروائیوں سے نبرد آزما ہے، اس نے طالبان سے ان کی طرف کی سرحد کو کنٹرول کرنے کی اپیل کی تھی لیکن اس کی امید کے مطابق کارروائی نہیں ہوئی۔

پریشان پاکستانی حکام طالبان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں کو ٹھکانے اور وسائل فراہم کرنے سے انکار کر دیں۔

پاکستان کی جانب سے یہ اپیل قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے ذریعے گزشتہ ماہ کابل کے دورے پر دہرائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے، ذبیح اللہ مجاہد

اس حوالے سے تبصرے کے لیے رائٹرز کی جانب سے معید یوسف کے دفتر درخواست کی گئی جس کا جواب نہیں دیا گیا۔

دوسری جانب پاک فوج کے انفارمیشن آفس نے بھی اپنی کارروائیوں کے دائرہ کار اور افغان سرزمین سے حملے جاری رہنے کی صورت میں اپنی حکمت عملی کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

کابل میں طالبان نے پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کیے جانے کے تاثر کو مسترد کیا اور امید ظاہر کی ہے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔

افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے رائٹرز کو بتایا کہ ہم سفارتی طریقوں سے اس طرح کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

افغان طالبان نے گزشتہ سال کے اواخر میں پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات کی سہولت فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن چند ہفتوں کے بعد یہ مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں