کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں نیند اور دماغی مسائل کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف

18 فروری 2022
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد میں نیند سے جڑے مسائل اور دماغی امراض کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اس تحقیق میں یکم مارچ 2020 سے 15 جنوری 2021 کے دورن کووڈ کو شکست دینے والے ایک لاکھ 53 ہزار سابق امریکی فوجیوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے بعد ایک سال کے اندر 2.3 مریضوں میں نیند کی کسی بیماری کی تشخیص ہوئی۔

درحقیقت یہ شرح ایسے افراد کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ تھی جو کووڈ 19 کے شکار نہیں ہوئے تھے۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں ڈُریشن کی تشخیص کا امکان 39 فیصد جبکہ انزائٹی کی تشخیص کا خطرہ 35 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے ذہنی صحت پر طویل المعیاد بنیادوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ جن بیماریوں کی ہم بات کررہے ہیں وہ کووڈ کے طویل المعیاد اثرات یا لانگ کووڈ کا نتیجہ ہیں اور وہ زندگی بھر لوگوں کو پریشان کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم سب ہی وبا کے دوران ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے ہیں مگر کووڈ کے مریضوں کی حالت زیادہ بدتر ہے اور انہیں ابتدائی تشخیص کے ایک سال بعد بھی ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہورہا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں مختلف امراض کی ادویات کے استعمال کی شرح زیادہ ہوسکتی ہے۔

مگر محققین نے بتایا کہ نتائج کا اطلاق ہر عمر کے افراد پر فی الحال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کی اوسط عمر 63 سال تھی اور ان میں بھی مردوں کی اکثریت تھی۔

چونکہ تحقیق میں شامل افراد وہ تھے جو وبا کے آغاز میں بیمار ہوئے تو ان میں سے بہت کم کی ویکسینیشن ہوئی تھی۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کورونا وائرس دماٖغ کو براہ راست متاثر کرتا ہے یا یہ طویل المعیاد اثرات بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ورم کا نتیجہ ہیں۔

ماہرین کے مطابق کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں دماغی امراض کا خطرہ بڑھنے کی ممکنہ وجہ حیاتیاتی عناصر اور نفسیاتی دباؤ ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں